کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 31
اوراس واقعہ کے مابین روایت کرنے والے تین یا اس سے بھی زیادہ واسطے ہیں۔ لہٰذا ایسی معضل روایت سے استدلال قطعاً صحیح نہیں۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم کی تخریج اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعیفہ [رقم :۵۹۸]میں اسی بنا پر اسے ضعیف قرار دیا ہے،بلکہ انھوں نے ذکر کیا ہے کہ علامہ الغزالی رحمہ اللہ نے اس روایت میں ’’ بِالدَّفِّ وْالْاَلْحَانِ‘‘ کے الفاظ کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ گیت بڑے سوز والحان سے دف پر گائے جا رہے تھے،جب کہ روایت میں سرے سے ان الفاظ کا ذکر ہی نہیں جیسا کہ علامہ عراقی رحمہ اللہ نے بھی اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃا ﷲعلیہ نے بھی فتح الباری [ج ۷ ص ۲۶۱،۲۶۲] باب مقدم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أصحابہ المدینۃ میں اس کو معضل قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب یہ قصہ ہی سنداً قابل اعتبار نہیں تواس کی بنیاد پر’’عام عورتوں ‘‘ کے گانے بجانے کا استدلال ہی صحیح نہیں۔
البتہ اس موقع پر حضرت انس رضی اﷲعنہ کی روایت صحیح ہے،جسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم مدینہ کی ایک گلی سے گزرے تو باندیاں دف بجا کر یہ گیت گا رہی تھیں :
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ
’’ہم بنو نجار کی باندیاں ہیں،خوشا نصیب کہ آج محمد (صلی اﷲعلیہ وسلم ) ہمارے ہمسائے بنے ہیں۔‘‘
اس روایت میں بچیوں اور لونڈیوں کے گیت گانے کا ذکر ہے مگر موسیقی مزاج فرماتے ہیں کہ ’’جوار‘‘ کا ترجمہ بچیاں کرنا درست نہیں کیونکہ معجم الطبرانی الصغیر [ج ۱ ص ۳۳،رقم:۸۸] میں اس کی بجائے ’’ قینات‘‘ مغنیات آیا ہے[اشراق،ص :۲۵]
اوّلا:گزارش ہے کہ معجم طبرانی کی یہ روایت سنداً صحیح نہیں،کیونکہ اس کا راوی مصعب بن سعید ابوخیثمہ المصیصی متکلم فیہ ہے،ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یُحَدِّثُ عَنِ الثِّقَاتِ بِالْمَنَاکِیْرِ