کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 30
جشن موسیقی اشراق کے مقالہ نگار بلکہ جناب غامدی صاحب کے اس عنوان پر غور فرمائیے اور پھر بتلائیے کہ جن روایات کی بنیاد پر’’موسیقی‘‘ بلکہ ’’جشن موسیقی‘‘ کا جواز ثابت کیا جا رہا ہے،ان سے ہمارے ہاں کا معروف ’’جشن موسیقی‘‘ کیوں کر جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ جس میں لہر بہر،عیش و نشاط اور ناچ رنگ کے وہ تمام طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جن سے سفلی جذبات بھڑکتے اور حیوانی جبلت ابھرتی ہے،اور وہ جشن بالآخر’’ من تو شدی تو من شدم ‘‘کا منظر و مظہر بن جاتا ہے۔ اس ’’جشن موسیقی‘‘ کے لیے سب سے پہلے جو دلیل پیش کی گئی وہ السیرۃ الحلبیۃ [ج ۲ ص ۲۳۵]کے حوالے سے یہ ہے کہ ابن رحمہ اللہ عائشہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے یہ گیت گایا: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاعٖ آج ہمارے گھر میں وداع کے ٹیلوں سے چاند طلوع ہوا ہے۔ ہم پر شکر اس وقت تک واجب ہے جب تک اﷲ کو پکارنے والے اسے پکاریں،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے پاس ایسا دین لائے ہیں جو لائق اطاعت ہے۔ اس واقعے سے استدلال کے پہلو پر تو ہم بعد میں عرض کریں گے،اولاً یہ گزارش ہے کہ کیا غامدی صاحب اور ان کے ہم نوا اس واقعہ کی کوئی صحیح سند پیش کر سکتے ہیں ؟ یہ ابن عائشہ کون ہیں ؟ صحابی رضی اللہ عنہ ہیں یا تابعی رحمہ اللہ ؟ جب کہ امر واقع یہ ہے کہ ابن رحمہ اللہ عائشہ سے مراد عبید رحمہ اللہ اﷲ بن محمد بن حفص التمیمی البصری ہیں جن کا سلسلہ ء نسب عائشہ بنت طلحہ سے ملتا ہے،اسی بنا پر انھیں ابن عائشہ،العیشی اور العائشی بھی کہا گیا ہے۔ یہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے مشائخ میں سے ہیں۔ ۲۲۸ھ میں ان کا انتقال ہوا اور اکثر و بیشتر وہ اتباع التابعین سے روایت کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے