کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 29
جاتے ہیں۔ حدیث میں گانے کے جن الفاظ کا ذکر ہے:
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ،فَحَیَّانَا و حَیَّاکُمْ
ہم تمہارے پاس آئے ہیں،ہم تمہارے پاس آئے ہیں،ہم بھی سلامت رہیں،تم بھی سلامت رہو۔
ان میں ایک حقیقت کا ذکر ہے اور دعائیہ کلمات ہیں،ایسے گانے کو معروف ’’موسیقی‘‘ کا نام دینا ہی غلط ہے اور حلال و حرام میں فرق نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
مزید برآں ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’محدثین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔‘‘ کن محدثین نے؟ کاش اس کی بھی وضاحت کر دی ہوتی۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سنن ابن ماجہ کی اسی روایت کے متعلق شیخ محمد فواد عبدالباقی نے تو لکھا ہے:
فی الزوائد اسنادہ مختلف فیہ من اجل الاجلح و ابی الزبیر،یقولون انہ لم یسمع من ابن عباس واثبت ابوحاتم انہ رأی ابن عباس۔[ابن ماجہ رقم:۱۹۰۰]
زوائد میں ہے کہ اس کی سند اجلح رحمہ اللہ اور ابوالزبیر رحمہ اللہ کی وجہ سے مختلف فیہ ہے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ ابوالزبیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے کچھ نہیں سنا،جب کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رؤیت ثابت کی ہے۔
شیخ محمد فواد نے یہ’’الزوائد‘‘سے نقل کیا جس کی تفصیل علامہ البوصیری کی مصباح الزجاجۃ [ج ۱ ص ۳۳۵]میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ مدلس ہیں اور یہ روایت بہرنوع معنعن ہے۔ اس لیے سند کے اعتبار سے اسے حسن قرار دینا قطعاً غلط ہے۔ البتہ اس کے دیگر شوائد کی بنیاد پر یہ روایت حسن،صحیح ہے،بلکہ اصل روایت اختصار کے ساتھ صحیح بخاری وغیرہ میں بھی ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقع پر فی الجملہ بچیوں یا لونڈیوں کا گانا تو جائز ہے،اسے ’’محفل موسیقی‘‘ کی دلیل قرار دینا جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے مابین فرق نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔