کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 28
و ضرب الدف لا یحل الا للنساء لأنہ فی الأصل من أعمالھن،و قد لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء۔ [شعب الایمان:۴/۲۸۳] دف بجانا صرف عورتو ں کے لیے حلال ہے۔ کیونکہ یہ دراصل انہی کا عمل ہے،جب کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے: ’’ وأما الضرب بہ للرجال فمکروہ علی کل حال لأنہ انما کان یضرب بہ النساء والمخنثون المتشبھون بھن ففی ضرب الرجال بہ تشبہ بالنساء و قد لعن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء ‘‘ [المغنی:۱۲/۴۱] مردوں کا دف بجانا بہرحال مکروہ ہے کیونکہ دف عورتیں اوروہ مخنث بجاتے تھے،جو عورتوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس لیے مردوں کا دف بجانا عورتوں سے مشابہت ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ وغیرہ نے جو ’’النساء‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے مراد آزاد عورتیں نہیں کیونکہ احادیث و آثار میں عموماً یہ شغل بچیوں اور لونڈیوں کے حوالے سے ہی آیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے :’’ اما الرجال علی عھدہ فلم یکن احد منھم یضرب بالدف ولا یصفق بکف‘‘ [مجموعۃ الرسائل الکبریٰ:۲/۳۰۱] کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کوئی نہ مرد دف بجاتا تھا اور نہ ہی تا ڑی۔ پس دف یا گانے کا یہ شغل صرف لونڈیوں اور بچیوں کے لیے ہے،آزاد عورتوں اور مردوں کے لیے نہیں۔ اور وہ بھی سادہ طریقہ پر نہ کہ غنا کی معروف صورت جو شادی بیاہ کے موقع پر عموماً اختیار کی جاتی ہے،باجے بجائے جاتے ہیں اور آلات ملاہی کی سُروں سے سامعین کو مسرور کیاجاتا ہے اور گانے میں عشق و محبت اور ہجر و وصال کے گیت گائے