کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 27
کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے شادی کے موقع پر گانے والے کو دلہن کے ہمراہ بھیجنے کی ترغیب دی بلکہ یہ جان کر کہ گانے والے کو دلہن کے ہمراہ نہیں بھیجا گیا،خوشگوارتاثر کا اظہار نہیں فرمایا اور آپ نے انصار کے گانا پسند کرنے کو بیان فرمایا،اسے باطل قرار نہیں دیا۔ [اشراق: ص ۲۲،۲۳] شادی کے موقع پر عورتوں کی مجلس میں لونڈیوں یا بچیوں کا گانا درست ہے بشرطیکہ وہ گیت جائز ہوں،ان میں حسن و جمال کی داستانیں نہ ہوں اور فسق و فجور اور عشق بازی کا تذکرہ نہ ہو۔ اس طرح کے گانے سے ’’محفل موسیقی‘‘ کے لیے جواز ثابت کرنا متجددین کا کام تو ہو سکتا ہے،دین کے کسی سچے خادم کا نہیں۔ ان متجددین کی یہ بھی کرشمہ سازی ہے کہ ابن ماجہ کی اس روایت کو بطور استدلال پیش کیا،جس سے شاید یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ شادی کے موقع پر گانے والے مردوں کا گانا بھی جائزہے۔ چنانچہ روایت کے ظاہر الفاظ: اَرْسَلْتُمْ مَعَھَا مَنْ یُّغَنِّیْ کا ترجمہ ہی یہ کیا گیا ہے کہ ’’اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجا ہے؟‘‘ اور استدلال میں بھی کہا گیا کہ ’’آپ نے شادی کے موقع پر گانے والے کو دلہن کے ہمراہ بھیجنے کی ترغیب دی۔‘‘ حالانکہ اسی روایت میں طبرانی اوسط کے الفاظ ہیں : فَھَلْ بَعَثْتُمْ مَعَھَا جَارِیَۃً تَضْرِبُ بِالدَّفِّ وَتُغَنِّیْ کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کسی بچی کو بھیجا ہے جو دف بجائے اور گانا گائے۔[مجمع الزوائد:۴/۲۸۹] حافظ ابن حجر رحمۃ اﷲ علیہ نے فتح الباری [ج ۹ ص۲۲۶] میں اس روایت پر سکوت کیا ہے،بلکہ ایک روایت کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس کا نام زینب تھا۔ جس سے ہمارے ان متجددین کی قلعی کھل جاتی ہے جو اس کوشش میں ہیں کہ ’’موسیقی‘‘ کا یہ شوق مرد بھی رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں بھی موسیقی کے ’’فن کار‘‘ موجود تھے۔ (معاذاﷲ) حالانکہ دف کا بجانا اور شادی بیاہ کے موقع پر گانا گانے کا جو کچھ طریقہ تھا وہ بچیوں اور لونڈیوں کا تھا،مردوں کا نہیں تھا۔ چنانچہ امام الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :