کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 26
اس روایت کی سند میں الوازع بن نافع راوی متروک ہے۔ مگر اس کے باوجود بڑی خاموشی سے اسے معرض استدلال میں پیس کرنا دین کی کون سی خدمت ہے ؟ الوازع بن نافع کا ترجمہ میزان الاعتدال [ج ۴ ص ۳۲۷]اور لسان المیزان [ج ۶،ص ۲۱۳۔۲۱۴]میں موجود ہے۔ امام یحییٰ رحمہ اللہ بن معین،احمد رحمہ اللہ،ابن ابی داود رحمہ اللہ نے اسے لیس بثقۃ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے منکر الحدیث،امام ابوحاتم رحمہ اللہ اور نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک کہا ہے۔ دولابی رحمہ اللہ،عقیلی رحمہ اللہ،ساجی رحمہ اللہ،ابن الجارود رحمہ اللہ اور ابن السکن رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے تو کہا ہے کہ وہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ کوئی ایک جملہ توثیق و تحسین کا اس کے بارے میں موجود نہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اس جیسے راوی کی بیان کردہ روایت سے بھی متجددین استدلال کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ شادی بیاہ پر موسیقی شادی کے موقع پر موسیقی کے جواز میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حسب ذیل روایت سے استدلال کیا گیا ہے۔ حدیث کا ترجمہ یوں ہے: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے انصار میں اپنی ایک عزیزہ کا نکاح کیا،اس موقع پر نبی صلی اﷲعلیہ وسلم بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ نے (لوگوں سے ) دریافت کیا: کیا تم نے لڑکی کو رخصت کر دیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا : کیااس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجا ہے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار گانا پسند کرتے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا تم اس کے ساتھ گانے والے کو بھیجتے جو یہ گیت گاتا:’’ہم تمھارے پاس آئے ہیں،ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔ہم بھی سلامت رہیں،تم بھی سلامت رہو۔‘‘ یہ روایت سنن ابن ماجہ رقم :۱۹۰۰ کے حوالے سے نقل کی گئی اور یہ بھی وضاحت فرما دی گئی کہ محدثین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا کہ اس سے معلوم ہوا