کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 25
کہیں دور دور تک تصور نہیں تواس واقعے سے عید کے روز ’’موسیقی‘‘ کی محفلوں اور مجلسوں کا جوا ز محض شیطانی وسوسہ ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ!! دوسری روایت عید کے روز موسیقی کے جواز کے لیے ایک اور روایت بھی ذکر کی گئی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : ’’اسی موضوع کی ایک روایت سیدہ ام سلمہ رضی اﷲعنہا کے حوالے سے المعجم الکبیرمیں نقل ہوئی ہے،وہ بیان فرماتی ہیں :عید الفطر کے دن حسان بن ثابت رضی اﷲعنہ کی ایک لونڈی ہمارے پاس آئی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے پاس دف تھا اور وہ گیت گا رہی تھی۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسے ڈانٹا۔ اس پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:ام سلمہ چھوڑ دو،بے شک ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج کے دن ہماری عید ہے۔ [طبرانی : ص۲۶۴،۲۶۵،ج ۲۳،رقم :۵۵۸] ہم نے اختصار کے پیش نظر ترجمہ پر ہی اکتفا کیا ہے اور ترجمہ بھی وہ نقل کیا ہے جو اشراق (ص :۲۱،۲۲)میں ہے۔مقالہ نگار نے جس وثوق سے اس روایت سے استدلال کیا ہے،اس سے عمومی طور پر یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور اس میں صرف دف کے ساتھ گانے کا ذکر نہیں بلکہ گانے والی کے بکھرے ہوئے بالوں کا بھی ذکر ہے۔ لہٰذا ’’فن موسیقی‘‘ کے اظہار پر گانے والیوں کے بکھرے ہوئے بالوں کے جواز پر بھی یہ روایت دال ہے۔ غامدی صاحب نے گو استدلال میں اس طرف توجہ نہیں دی تاہم مجموعی طو رپر اس روایت سے استدلال کا نتیجہ یہی ہے کہ گانے والیوں کے بال گاتے ہوئے اگر بکھر ے ہوئے ہوں جیسا کہ عموماً پیشہ ور مغنیہ کے بال اسی طرح بکھرے ہوئے ہوتے ہیں،تو یہ روایت اس کے جواز پر بھی دال ہے۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ روایت پایہ استدلال سے قطعاً ساقط ہے۔ معجم طبرانی کبیر کے حاشیہ ہی میں شیخ حمدی حفظہ اﷲ نے مجمع الزوائد [ج ۲ ص ۲۰۶] کے حوالے سے وضاحت کر دی ہے کہ : فیہ الوازع بن نافع وھو متروک