کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 24
’’إن الغناء یطلق علی رفع الصوت و علی الترنم الذی تسیمہ العرب النصب بفتح النون وسکون المھملۃ و علی الحداء ولا یسمی فاعلہ مغنیا،وإنما یسمی بذلک من ینشد بتمطیط و تکسیر و تحییج و تشویق بما فیہ تعریض الفواحش او تصریح‘‘ [فتح الباری:۲/۴۴۲]
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری فی شرح صحیح البخاری [ج :۶،ص :۷۸،۸۰] میں بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے کہ ان بچیوں کا گانا عجمیوں کے گانے کی مانند نہ تھا۔ بلکہ بدویوں کی طرح سادہ طریقہ پر اشعار پڑھنا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی وضاحت کہ ’’ لَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ‘‘وہ مغنیہ نہ تھیں،اس بات کی صاف دلیل ہے کہ ان کا گانا معروف مغنیہ کی طرح نہ تھا۔ لہٰذا جب گانے والیاں مغنیہ نہیں تھیں اور جو کچھ گایا وہ بھی غنا ء ِمعروف میں شمار نہیں ہوتا تو ان کے گانے کو ’’عید پر موسیقی‘‘ قرار دینا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اسی دھوکے میں مبتلا ہو کر جو تفریعات قائم کی گئی ہیں ان کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟
سادہ آواز سے اشعار پڑھنا،بشرطیکہ وہ عشق و معاشقہ کے قبیل سے نہ ہوں،حرب و ضرب کے بارے میں ہوں یا حمد و نعت اور حسن اخلاق کے پہلو سے ہوں،وہ عید کے دن بھی جائز ہیں اور دوسرے ایام میں بھی۔ ایسے اشعار کو غنا ئِ محرم سے تعبیر کرنا اور اس سے موسیقی کے جواز کا فتویٰ وفیصلہ کرنا علم نہیں بے علمی کی بدترین مثال ہے۔ جو بچیاں جنگ بعاث کے متعلق اشعار ایام عید میں پڑھ رہی تھیں اور ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں،آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم چادر لیے رخ دوسری جانب کیے ہوئے لیٹے تھے،حضرت ابوبکر رضی اﷲعنہ نے دیکھا تو سمجھا کہ آپ آرام فرما رہے ہیں اور گھر میں یہ تماشا ہو رہا ہے۔ اسی بنا پر اس عمل کو انھوں نے شیطانی ساز فرمایا۔ مگر آپ نے عید کی مناسبت سے اس پر انکار نہ فرمایا کہ یہ خوشی کا دن ہے اور خوشی کے دن اس قدر خوشی کا اظہار ممنوع نہیں مگر اس بنیاد پر عید کے روز ’’موسیقی‘‘ کا باقاعدہ ’’اہتمام ‘‘ اور اس کے لیے معروف ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ کو دعوت،کا جواز کیسے ثابت ہوا؟ یہ تو تبھی ہو سکتا تھا جب موسیقی کی محفلیں جمی ہوتیں،پیشہ ور مغنیہ گانے سے سامعین کو محظوظ کرتیں اور ان سے داد وصول کرتیں۔ جب اس کا