کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 23
چھٹی کہاں سے نکل آئی؟ غنا او راہل عرب پھر یہ بات بھی بجائے خود غور طلب ہے کہ اہل عرب کے ہاں غنا کا عموماً مفہوم کیا ہے ؟ چنانچہ علامہ ابن منظور رحمہ اللہ لکھتے ہیں : کل من رفع صوتہ و والاہ فصوتہ عند العرب غناء۔[لسان العرب:۱۹/۳۷۳] جو بلند آواز کرے اور اسے خوبصورت و مشتاق بنائے اہل عرب کے ہاں وہ غنا ہے۔ بلکہ انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی زیر بحث حدیث نقل کرنے کے بعد صاف صاف لکھا ہے : ای تنشدان الأشعار التی قیلت یوم بعاث وھو حرب کانت بین الانصار ولم ترد الغناء المعروف بین اھل اللھو واللعب،و قد رخص عمر رضی اللّٰہ عنہ فی غناء الاعراب وھو صوت کالحداء [لسان العرب:۱۹/۳۷۴] وہ دونوں اشعار پڑھتی تھیں جو جنگ بعاث کے دن کہے گئے تھے اور جنگ بعاث انصار (اوس و خزرج) کے مابین ہوئی تھی۔ اس سے وہ غنا مراد نہیں جو اہل لہوو لعب کے نزدیک معروف ہے۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے غنا اعراب کی رخصت دی ہے اور وہ،وہ آواز ہے جو اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نکالی جاتی ہے۔‘‘ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے النہایہ[ج: ۳ :۳۹۲] میں بھی اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں کہ ا س غنا سے مراد لہوولعب میں مبتلا لوگوں کا غنا نہیں بلکہ سادہ طریقہ سے اشعار پڑھنا مراد ہے اور یہی کچھ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدة القاری [ج :۶ ص :۲۶۹،۲۷۱]میں کہی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں کہ غنا کا اطلاق بلند آواز پر ہوتا ہے جس میں ترنم پایا جائے،جسے عرب حُدِی کے مشابہ سمجھتے ہیں اور اسے وہ (مغنی) گانے والا نہیں سمجھتے۔ بلکہ مغنی وہ اسے کہتے ہیں جو مختلف طریقہ پر آواز نکالتا ہے جس میں نشیب و فراز پایا جاتا ہے او ر طبیعت اس سے برانگیختہ ہو تی ہے اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں فواحش کا تصریحاً یا تعریضاً ذکر ہوتاہے۔ا ن کے الفاظ یہ ہیں :