کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 22
اس سے لونڈیاں ہی مراد لیا جائے۔‘‘
چلیے ہم ’’لونڈیاں ہی مراد‘‘ لے لیتے ہیں۔ لیکن ان لونڈیوں کے نابالغ نہ ہونے کی جو بنا انھوں نے قرار دی کہ انھیں ’’ قینۃ‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس کا فساد اوراس کی کمزوری آپ پہلے ملاحظہ کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شارحین حدیث نے انھیں نابالغ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’ الجاریۃ فی النساء کالغلام فی الرجال و یقال علی من دون البلوغ‘‘[عمدۃ القاری:۶/۲۶۸]
جاریہ کا اطلاق عورتوں میں اسی طرح ہے جس طرح غلام کا اطلاق مردوں میں ہے اور جاریہ اسے کہتے ہیں جو ابھی بالغ نہ ہو۔
شارح صحیح مسلم علامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے ان احادیث پر عنوان ہی یوں دیا ہے:
فصل فی جواز لعب الجواری الصغار و غنائھن وضربھن بالدف یوم العیدین [شرح صحیح مسلم:۱/۲۹۱]
یہ فصل ہے عیدین کے روز چھوٹی بچیوں کے کھیلنے اور ان کے گانے اور دف بجانے کے جواز میں۔
اسی طرح علامہ ابن رحمہ اللہ قیم رقم طراز ہیں :
إذ ھما جویریتان صغیرتان دون البلوغ غیر مکلفتین [کشف الغطاء ص :۱۹۸]
وہ دونوں غیر مکلف چھوٹی بچیاں تھیں جو بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں۔
یہی کچھ انھوں نے اغاثۃ اللہفان[ ج :۱،ص :۲۷۵]میں کہا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اس سے چھوٹی بچیاں ہی مراد لیتے ہیں [مجموعہ الرسائل الکبریٰ:۲/۳۰۲]۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے تلبیس ابلیس [ص : ۱۹۷] میں بھی صغیر السن ہی مراد لی ہے۔ لہٰذا جب وہ غیر بالغ اور غیر مکلف تھیں اور تھا بھی عید کا دن تو ان کے گانے سے بالغ آزاد عورتوں کے گانے اور پیشہ وارانہ گلوکاری کا جواز کہاں سے نکل آیا؟اور پیشہ وروں کے لیے اس کی کھلی