کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 21
:۹۴۹،۹۵۲،۳۵۲۵۔ البتہ ہشام سے شعبہ کی روایت میں ’’ قَیْنَتَاِن‘‘ کا لفظ ہے۔ رقم:۳۹۳۱۔ اور اسی روایت میں یہ شک بھی بیان ہوا ہے کہ یہ عید الفطر کا دن تھا یا عیدالاضحیٰ کا۔ جب کہ زہری کی روایت میں بلاریب ’’ایام منیٰ‘‘ یعنی عیدالاضحیٰ کا ذکر ہے۔ گویا صرف امام شعبہ رحمہ اللہ کی روایت میں ’’قَیْنَتَانِ‘‘ کا ذکر ہے اوراسی میں شک کا ایک اور پہلو بھی موجود ہے۔ باقی روایات میں ’’ جَارِیَتَانِ‘‘ ہی کا لفظ ہے۔ بلکہ مسند امام احمد علیہ الرحمۃ [ج :۶ ص :۹۹] میں خود شعبہ کی روایت میں بھی ’’ جَارِیَتَانِ‘‘ ہی کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے بھی اگر ’’ قَیْنَتَانِ‘‘ کا لفظ ایک روایت میں بیان کیا ہے تواس کے معنی بھی ’’جَارِیَتَانِ‘‘ ہی ہے۔ جیسا کہ اہل عرب کے ہاں یہ معروف ہے کہ ’’ قَیْنۃ‘‘ کے معنی جاریہ ہے۔ بایں طو ربھی امام شعبہ کی ایک روایت کے مطابق ’’ قینۃ‘‘ کے معنی پیش ور مغنیہ قرار دینا محض خواہش پرستی ہے۔ علم کی کوئی خدمت نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی وضاحت کہ ’’ لَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ‘‘ وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں،سے تو کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ علامہ عینی رحمۃ اﷲ علیہ بالصراحت لکھتے ہیں : ’’ یعنی لم تتخذا الغناء صناعۃ وعادۃ ‘‘[عمدۃ القاری:۶/۲۷۰] ان دونوں نے غنا کو پیشہ اور عادت کے طو رپر اختیار نہیں کیا۔ اس کے بعد بھی انھیں ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ اور ’’ماہر فن مغنیہ‘‘ قرار دینا ہٹ دھرمی اور لفظی میناکاری ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جاریہ کے معنی یہاں یہ بات مزید غور طلب ہے کہ حدیث میں ’ جَارِیَتَانِ‘ کا لفظ استعمال ہو اہے اور جاریہ کا عموماً اطلاق بچی اور نابالغ لڑکی پر ہوتا ہے،اور اس کا اعتراف غامدی صاحب کو بھی ہے کہ ’’جاریہ ‘‘ کا لفظ بچی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ [اشراق: ص ۲۰] اس اعتبار سے اس حدیث سے بالغ عورتوں کے لیے گانے بجانے کا جواز ڈھونا اندھے کو اندھیر ے میں بہت دور کی سوجھی،کا مصداق ہے۔ اسی لیے انھوں نے فرمایا ہے کہ ’’یہاں لازم ہے کہ