کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 20
القینۃ سے مراد لونڈی ہے وہ گانا گائے یا نہ گائے۔ اس سے قبل انھوں نے یہ بھی فرمایا : ’’ وقال اللیث : عوام الناس یقولون: القینۃ المغنیۃ قال ابومنصور : انما قیل للمغنیۃ قینۃ إذ اکان الغناء صناعۃ لھا و ذلک من عمل الاماء دون الحرائر والقینۃ الجاریۃ تخدم حسب والقین العبد ‘‘ [لسان العرب: ۱۷/۲۳۱[ اور لیث نے کہا کہ عوام الناس کہتے ہیں ’’ القینۃ‘‘ کے معنی مغنیہ ہے۔ ابومنصور نے کہا: مغنیہ کو قینہ تب کہا گیا ہے جب غنااس کا پیشہ ہو۔ اور غنا کا یہ عمل لونڈیاں کرتیں تھیں،آزاد عورتیں نہیں۔ اور ’’القینہ ‘‘دراصل خدمت گزار لونڈی،اور غلام کو ’’قین ‘‘کہتے تھے۔ غور فرمایا آپ نے کہ ’’ قینۃ‘‘ کے معنی مغنیہ کرنا ’’عوام الناس‘‘ کا قول ہے،اہل عرب کا نہیں مگر ہمارے یہ متجد دین اس کو ’’معروف و معلوم‘‘ معنی قرار دیتے ہیں اور یہ محض عوام الناس کو دھوکا دینے کے لیے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ نے گانا گایا،لہٰذا موسیقی جائز ہوئی، معاذاللّٰہ !! پھر یہ جو پیشہ ور مغنیہ کو ’’قینہ‘‘ کہا گیا ہے تو یہ اس لیے کہ یہ پیشہ بھی لونڈیاں ہی اختیار کرتی تھی،آزاد عورتیں نہیں۔ جیسا کہ ابومنصور نے وضاحت کی ہے۔ اور آج اسی لفظ کی بنیاد پر پر آزاد عورتوں اور مردوں کے لیے فن موسیقی کا جواز ثابت کیا جاتا ہے۔ فانا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔!! قَیْنَۃ کی مزید تحقیق جناب غامدی نے کیا اس پر بھی غور فرمایا کہ جس روایت میں ’’ جَارِیَتَانِ ‘‘ کی بجائے ’’ قَیْنَتَانِ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے،اس استعمال میں راوی کے عمل ودخل کی نوعیت کیا ہے ؟ اولاً: تو یہ دیکھیے کہ بخاری شریف ہی میں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے عروہ نے بیان کی ہے اوران سے روایت کرنے والوں میں محمد بن عبدالرحمن ابوالاسود الاسدی،ہشام،ابن شہاب زہری تینوں کی روایت میں ’’ جَارِیَتَانِ‘‘ کا لفظ ہے۔ رقم