کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 19
القینۃ لونڈی کو کہتے ہیں وہ گانا گائے یا نہ گائے۔
اسی طرح علامہ جوہری رقم طراز ہیں :
’’ القینۃ الأمۃ مغنیۃ کانت أو غیر مغنیۃ والجمع القیان ‘‘
القینۃ کے معنی لونڈی ہے،وہ گانے والی ہو،خواہ نہ گانے والی ہو۔ اوراس کی جمع القیان ہے۔
اس کے بعد انھوں نے اس کی تائید میں زہیر کا شعر نقل کرکے مزید لکھا ہے:
قال ابوعمرو: کل عبد عند العرب قین والأمۃ قینۃ،قال و بعض الناس یظن القینۃ المغنیۃ خاصۃ،قال : ولیس ھو کذلک[الصحاح: ۶/۲۱۸۶]
ابوعمرو نے کہا: کہ اہل عرب ہر غلام کو ’’قین‘‘ اور لونڈی کو ’’قینۃ‘‘ کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’القینۃ‘‘ خاص طو رپر مغنیہ کو کہتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
غور فرمائیے ابوعمرو جس معنی کی تردید کر رہے ہیں،ہمارے یہ متجددین اسی معنی کی بنیاد پر ’’القینۃ‘‘ کے معنی ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ قرار دینے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں : ع
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا خود صراحت فرماتی ہیں کہ وہ مغنیہ نہ تھیں،چہ جائیکہ انھیں پیشہ ور مغنیہ کہا جائے۔ ’’القینۃ‘‘ کے معنی اہل عرب کے ہاں لونڈی ہو،اس کے معنی مغنیہ ہی کرنے کی تردید بھی کی گئی ہو،مگر یہی مردود قول درست اور راجح،نہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی وضاحت قابل قبول،نہ اہل عرب کا راجح قول ہی منظور ہے ؎
دل نہ چاہے تو رسالت کا بھی ارشاد غلط
من کو بھا جائے تو بھانڈوں کی خرافات بجا
علامہ ابن منظور رحمۃ اﷲعلیہ نے بھی لسان العرب [ج : ۱۷،ص : ۲۳۱] میں ابوعمرو کا مذکور قول ذکر کیا اوراس کے متصل بعد حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی مذکورۃ الصدور روایت نقل کرکے وضاحت فرما دی ہے کہ :
’’ القینۃ الأمۃ غنت او لم تغن ‘‘