کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 18
تھیں اور یہ اس لیے کہ ایک روایت میں ’’ جَارِیَتَانِ ‘‘کی بجائے ’’قَیْنَتَانِ‘‘ کا لفظ ہے۔ بڑے ہی افسوس سے عرض ہے کہ غامدی صاحب کو بخاری کی ایک روایت میں جو بقول ان کے نمبر۳۷۱۶ پرہے ’’قینتان‘‘ کا لفظ تونظر آگیا مگر اس پہلی حدیث جس کا نمبر انھوں نے ۹۰۷ ذکر کیا ہے،جو کتاب العیدین کے دوسرے باب میں ہے اور شیخ محمد فواد عبدالباقی مرحوم کی ترقیم میں جیسا کہ شیخ ابن باز رحمۃ اﷲ علیہ کی مراجعت سے شائع ہونے والی فتح الباری کے رقم : ۹۴۹پر ہے،ا س سے صرف دو احادیث بعد رقم(۹۵۲) میں خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی یہ وضاحت نظر نہ آئی کہ ’’قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ‘‘ انھوں نے فرمایا کہ وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں۔ غامدی صاحب کی نظر عمیق کی داد دیجیے کہ انھیں حدیث نمبر (۳۷۱۶)میں ’’قَیْنَتَانِ ‘‘ کا لفظ تو مل گیا مگر پہلی حدیث کے ساتھ ہی تیسری حدیث میں یہ وضاحت کہ وہ مغنیہ نہ تھیں ان کی عقابی نگاہ سے اوجھل ہی رہی۔ سبحان اﷲ۔!! صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم [۱/۲۹۱]میں بھی اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ’’ لَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ ‘‘ وہ مغنیہ نہ تھیں۔ نیز دیکھیے: بیہقی [۱۰/۲۳۴] حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس وضاحت کے بعد کہ وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں،پھر بھی یہ ضد کرنا اورا س پر اڑنا کہ وہ ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ اور ’’ماہر فن مغنیہ ‘‘ تھیں،علم کی کون سی معراج ہے؟ یہ ضد،کسی ضدی،نافہم بچے کی تو ہو سکتی ہے،کسی صاحب علم اور بالغ نظر محقق سے ا س کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ قَیْنَۃ کے معنیٰ علاوہ ازیں ’’ قینۃ‘‘ کے معنی ’’پیشہ ور مغنیہ ‘‘ہی قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔ اصحاب اشراق کے محبوب مفسر اور لغت کے امام علامہ زمخشری حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی یہی حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ اَلْقَیْنَۃُ الأمَۃُ غَنَتْ اَمْ لَا ‘‘ [الفائق: ۲/۱۹۰]