کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 17
جَارِیَتَانِ تُغَنِّیَانِ بِغِنَآئِ بُعَاثَ فَاضْطَجَعَ عَلَی الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْھَہ‘ وَ دَخَلَ اَبُوْبَکْرٍ فَانْتَھَرَنِیْ وَقَالَ: مِزْمَارَۃُ الشَّیْطَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَأقْبَلَ عَلَیْہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فقال : دَعْھُمَا۔ فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُھَمَا فَخَرَجَتَا۔ [بخاری رقم:۹۴۹] ’’رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اسی موقع پر دو (مغنیہ) لونڈیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم بستر پر دراز ہو گئے اور اپنا رخ دوسری جانب کر لیا۔ (اسی اثناء میں ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ گھر میں داخل ہوئے (گانے والیوں کو دیکھ کر) انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا،نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز (کیوں ؟) ( یہ سن کر ) رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انھیں (گانا بجانا ) کرنے دو۔ پھر جب حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ دوسرے کام میں مشغول ہو گئے تو میں نے ان( گانے والیوں کو) چلے جانے کا اشارہ کیا تووہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا۔‘‘ روایت کا ترجمہ ہم نے اشراق ہی سے من و عن نقل کیا ہے تاکہ ترجمے کی غلطی کا الزام نہ رہے۔ اس روایت کے بارے میں ان کی طول بیانی سے قطع نظر ان کے استدلال کی بنیاد پر غور کیجیے جس کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ گانے والیاں ماہر فن مغنیات تھیں ‘‘۔[اشراق: ص ۲۰] اوراس کے لیے دلیل یہ ہے کہ بخاری شریف رقم : ۳۷۱۶ہی میں ’’ عِنْدَھُمَا قَیْنَتَانِ تُغَنِّیَانِ‘‘ کے الفاظ ہیں کہ ان کے ہاں دو مغنیہ لونڈیاں گیت گار ہی تھیں اور ’’ قینۃ‘‘ کا معلوم و معروف معنی ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ ہے۔ [اشراق: ص ۲۰] گانے والیاں کون تھیں ؟ بڑے وثوق سے فرمایا گیا ہے کہ گانے والیاں ’’ماہر فن مغنیات‘‘ اور ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘