کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 16
گلوکارائیں،فلمی ستارے،طبلہ،سارنگی،ڈھول،گٹار،بانسری وغیرہ سے کرتے ہیں۔ محفلوں اور مجلسوں کی زینت بنتے ہیں۔ جناب غامدی نے شادی بیاہ پر موسیقی،جشن موسیقی آلات موسیقی،رقص کے عنوان قائم کرکے اس کے جواز کا جو فتویٰ صادر فرمایا ہے،وہ ان فلمی ستاروں اور گلوکاروں کے دل کی ترجمانی کی ہے اوران کے ’’فن‘‘ کی تحسین و توصف کر کے اس ناچ گانے کو ’’مباحات فطرت‘‘ قرار دے کر جو اس طبقے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے یہ ان کے علم وتفقہ کا کمال ہے۔ علامہ اقبال مرحوم نے قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے فرمایا تھا: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمَم کیا ہے شمشیر و سناں اول،طاؤس و رباب آخر مگر ہمارے یہ فقیہان حرم اس’’ طاؤس و رباب ‘‘کو مباحات فطرت قرار دینے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ غامدی صاحب کی یہ جسارت بھی دیدنی ہے کہ موسیقی کے بارے میں وہ یہ دعویٰ بھی رکھتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے موسیقی کو پسند فرمایا‘‘[اشراق:ص ۱۹] معاذ اﷲ!گویا گانے بجانے اور اس کے مختلف راگ جو آلات موسیقی پر گائے جاتے اور جو فنکار اس حوالے سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ سب جائز بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ اعمال ہیں حالانکہ یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر سراسر اتہام عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آلات ملاہی اور ’’فنون لطیفہ‘‘ کی تردید فرمائی اور ان کو حلال قرار دینے والوں کی مذمت کی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل ان شاء اﷲ اپنے محل پر آئے گی۔ ہم یہاں اولاً ان فنون لطیفہ اور موسیقی کے جواز کے دلائل کی حیثیت واضح کر دینا چاہتے ہیں جن کی بنیاد پر اس فن کے جواز کی جسارت کی جا رہی ہے۔ عید پر موسیقی چنانچہ اسی عنوان کے تحت سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حسب ذیل روایت کو عید پر موسیقی کے جواز کے لیے پیش کیا ہے،فرماتی ہیں : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ ُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِیْ