کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 15
’’سلف سے ایسی کوئی روایت ثابت نہیں،ان میں اکثر ایسی ہیں جن کی نہ کوئی کوہان ہے،نہ نکیل۔‘‘ [ تحریم آلات الطرب ص :۹۸] صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے قرآن مجید میں ’’ لھو الحدیث‘‘ کا مصداق ’’موسیقی‘‘ قرار دیا،انہی کے سامنے قرآن نازل ہوا،و ہی اس کے اولین مخاطب تھے۔ وہ تو قرآن سے موسیقی کو حرام قرار دیں مگر ہمارے متجددین کے نزدیک: ’’قرآن مجید اس کے بارے میں خاموش ہے۔‘‘ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے بعض منچلے اور مادر پدرآزاد دانشور کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے شراب کو حرام قرار نہیں دیا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تو ﴿فَھَلْ اَنْتُمْ مُنْتَھُوْنَ﴾ سن کر پکاراٹھے’’ انتھینا انتھینا ‘‘ [ تفسیر ابن کثیر: ۲ / ۱۰۴۔۱۰۵] مگر ہمارے ان دانشوروں کو یہ حرمت سمجھ نہیں آئی۔ بالکل یہی معاملہ موسیقی کا ہے۔ تشابھت قلوبھم وأقوالھم۔ موسیقی کے بارے میں فقہائے اربعہ کے مسلک و موقف کے اعتراف کے باوجود بڑی جراء ت و دلیری سے فرمایا جاتا ہے کہ : ’’اسلامی شریعت میں اس تصور کی کوئی بنیاد نہیں ‘‘ بلکہ یہ بھی کہ : ’’اس فن کے جائز ہونے میں ان کے نزدیک کوئی شبہ نہیں۔‘‘ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ فقہائے امت رحمہم اللہ اور عموماً علمائے کرام نے اس کے حرام و ممنوع ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے،وہ سراسر غلط ہے بلکہ ایک ’’جائز فن ‘‘ کو انھوں نے حرام قرار دے کر ﴿ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ﴾ کے قرآنی حکم کے مطابق ایک جرم کیا ہے۔ (معاذ اللّٰہ ) اکثریت ِامت کی یوں تغلیط و تضلیل دراصل ہوائے نفس اور عجب نفس ہی کا کرشمہ ہے۔ اعاذنااللّٰہ منہ! ’’موسیقی‘‘ نہیں بلکہ ان کے نزدیک اس ’’فن‘‘ کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ خوش الحانی پر اگر کوئی موسیقی کا اطلاق کردے تو ممکن ہے کہ اس کی کوئی گنجائش بن پائے۔ مگر یہاں تواس ’’فن ‘‘ کے جواز کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے۔ جس کا اہتمام اداکارائیں،گلوکار،