کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 14
۲۰۰۴ ء میں ’’اسلام او رموسیقی‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون دراصل جاوید احمد غامدی کا ایک لیکچر ہے جو انھوں نے ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ کے موضوع پر دیا،موضوع سے متعلق مواد کی تحقیق و تنقیح کے بعد ’’اسلام اور موسیقی‘‘ کے نام سے ’’اشراق‘‘ میں شائع کیا۔ اس موضوع کے بارے میں اس حقیقت کا اعتراف خود انھوں نے یوں کیا ہے: ’’فقہ کے چاروں مکاتب کا بالعموم اس بات پر اتفاق ہے کہ موسیقی اور آلات موسیقی مطلق طور پر حرام ہیں۔‘‘[اشراق ص : ۴۸] مزید ارشاد ہوتا ہے : ’’ہمارے نزدیک بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلام موسیقی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں اس تصور کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ یہ مباحات فطرت میں سے ہے،قرآن مجید اس کے بارے میں خاموش ہے،تاہم حدیث کی کتابوں میں ایسی متعدد روایتیں موجود ہیں جواس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں،چنانچہ ان کے نزدیک اس فن کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘ [اشراق ص : ۲] جس سے یہ بات بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ غامدی صاحب اور ان کے ہم نوا اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہائے اربعہ یعنی امام مالک،امام ابوحنیفہ،امام شافعی،امام احمد رحمہم اللہ،بلکہ عموماً علمائے امت موسیقی اور آلات موسیقی کو حرام اور ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ہم یہاں یہ بحث تحصیل حاصل سمجھتے ہیں کہ فقہائے اربعہ رحمہم اللہ کے اقوال اور ان کی آراء ذکر کی جائیں تاہم یہ بات عرض ہے کہ صرف فقہائے اربعہ رحمہم اللہ نہیں،بلکہ موسیقی اور آلات موسیقی کی حرمت پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا بھی اتفاق ہے۔ کسی ایک صحابی سے بھی بہ سند صحیح اس کا جواز منقول نہیں۔ بعض حضرات نے اس کا بلاسند انتساب ان کی طرف کیا مگر حافظ ابن حجررحمۃ اﷲعلیہ نے صاف صاف لکھا ہے: لکن لم یثبت من ذٰلک شیء۔ [ فتح الباری: ۱۰/۵۴۳] ان سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ علامہ البانی رحمۃ اﷲعلیہ نے بھی فرمایا ہے: