کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 11
کہ اَلْغِنَائُ رُقْیَۃُ الزِّنَا گانا بدکاری کا منتر ہے۔جب کہ اسلام انسانوں میں اس کے برعکس روحانی جذبات اور ملکوتی صفات ابھارتا اور ان کی نشوونما کرتا ہے۔
مذکورہ تین وجوہ سے موسیقی کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا مگر اس کے برعکس ہمارے ملک میں متعدد طبقے اس مسئلے میں خود بھی انتشار ذہنی کا شکار ہیں اور وہ اس فکری انتشار کے پھیلانے میں بھی کوشاں ہیں۔ پہلے تو اس محاذ پر صرف وہی لوگ سرگرم تھے جو دینی حلقوں میں مغرب زدہ یا سیکولر وغیرہ ناموں سے معروف تھے یا پھر وہ طبقہ تھا جو فسق و فجور کا رسیا تھا۔ لیکن اب منحرفین کا ایک گروہ بھی پیدا ہو گیا ہے،جس نے ظاہری طور پر تو لبادہ مذہب کا اوڑھا ہوا ہے اور دعویٰ علم وتحقیق کا کرتا ہے۔ لیکن کام اس کا بھی یہی ہے جو مذکورہ دین بیزار اور خدانافراموش لوگوں کا ہے۔
چنانچہ اس ٹولے کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ مسلمات اسلامیہ کا انکار کیا جائے یا ان میں تشکیک پیدا کی جائے اور ہر فکری زیغ و ضلال کو اپنے ’’علم وتحقیق‘‘ کے زور پر ’’صحیح‘‘ باور کروایا جائے۔ اس گروہ نے پہلے اپنے آپ کو ’’فکر فراہی‘‘ کا وارث قرار دیا۔ اس سے ’’ترقی‘‘ کرکے پھر یہ مولانا امین احسن اصلاحی کے دامن عقیدت سے وابستہ ہو گیا،جنھوں نے فکر فراہمی کے خدوخال کو واضح کرکے بتلایا کہ یہ فکر ’’قرآن ‘‘ کے نام پر احادیث سے انحراف اور اسلاف کی تعبیر سے گریز کا نام ہے۔ اب اس کی قیادت جاوید احمد غامدی کے پاس ہے جنھوں نے اس انحراف اور گریز پائی کو اور ترقی دے دی ہے۔ اب اس گروہ کے لیے بھی اسلامی عقیدہ ومسلمہ سے انکار و انحراف اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
چنانچہ اس نے معراج جسمانی کا انکار کیا،حدرجم کے شرعی حد ہونے کا انکار کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول آسمانی کا انکار کیا،ظہور امام مہدی اور خروج دجال کا انکار کیا،احادیث کی حجیت کو مشکوک ٹھہرایا،تصویر کی حرمت کا انکار کیا،وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح موسیقی کی حرمت کا انکار کرکے اس کو حلال قرار دینے کی مذموم سعی کی۔
زیر نظر کتاب۔۔ اس گروہ کے انہی ’’دلائل‘‘ کے جائزہ پر مشتمل ہے۔ جن کے ذریعے سے اس گروہ نے موسیقی کو جائز قرار دینے پر زور لگایا ہے۔ اس کتاب میں برادر