کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 10
قدیم چیز کا نیا قالب اور نیا پیکر،جو قرآن و حدیث کی کسی نص سے متصادم ہوں یا اسلام کے اصول و مقاصد کے خلاف۔
اس نقطہ نظر سے جب ہم موسیقی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے،البتہ موجودہ دورمیں اسے ایک نیا پیکر عطا کیا گیا ہے۔دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس ایجاد یا آلہ کا تعلق گانے بجانے کی صنف سے ہے۔اور تیسری بات یہ کہ اس کا مقصد سفلی جذبات کو بھڑکانا اور حیوانی جبلت کو ابھارنا ہے۔
یہ موسیقی،طبلہ،سارنگی،ڈھول،بربط و ساز وغیرہ جیسی چیزوں کی ایک نئی شکل ہے جسے آج کل کے شیطانی دماغوں نے نہ صرف ایک حسین پیکر عطا کیا ہے بلکہ اس کی متاثر کن صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کا تعلق بھی عشقیہ اور بازاری قسم کے گانوں سے ہے جو ان کے بازاری پن کو اور زیادہ کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس سے سفلی جذبات بھی بھڑکتے اور حیوانی جبلت بھی ابھرتی ہے۔ گویا موسیقی کے اندر حرمت و قباحت کی تین وجوہ پائی جاتی ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ گانے بجانے کے ان آلات سے ہے جن کی حرمت قرآن مجید،احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود ہے،جس کی ضروری تفصیل آپ کو اسی کتاب ’’اسلام اور موسیقی‘‘ میں ملے گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس پیشے کو اپنانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور اسی طرح اس میں دلچسپی بھی صرف وہی لوگ لیتے ہیں جو دین وشریعت سے بالعموم بے بہرہ یا اس پر عمل کرنے کے جذبے سے محروم ہوتے ہیں۔کوئی دیندار اس پیشے کو اختیار کرتا ہے اور نہ اسلام پر عامل شخص اس میں دلچسپی ہی رکھتا ہے۔ جس سے اسی بات کا اثبات ہوتا ہے کہ گانے بجانے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسری وجہ موسیقی کی حرمت کی،اس کے وہ اثرات ہیں جو انسان کے اخلاق و کردار پر اس سے پڑتے ہیں اور وہ ہے بے حیائی،سفلی اور حیوانی جذبات کی نشوونما اور اس طرح کے دیگر غیر اخلاقی اثرات۔ چنانچہ مشہور بزرگ حضرت فضیل بن عیاض کا فرمان ہے