کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 8
ساتھ مقرر کا ساتھ دیتے اور بغور اس کی باتوں کو سنتے رہتے ہیں۔اس کے بعد دھیرے دھیرے تکان سے مغلوب ہوکر بار بار جماہی لیتے،جھپکیاں لیتے اور بسا اوقات جلسہ گاہ کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔کچھ تو وہیں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔صرف بعض حالات میں کسی نامور مقرر کا تقریری جادو نیند اور تکان کو مغلوب کردیتا ہے ورنہ عموما یہی دیکھا جاتا ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد جسم شکست وریخت سے دو چار ہو ہی جاتا ہے۔
مبلغ اعظم اور داعی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے خطبے اور تقریریں کتب احادیث میں مروی ہیں ان میں اکثر مختصر ہیں اور تطویل سے خالی ہیں۔آپ وعظ وتبلیغ کے سلسلے میں سننے والوں کی نشاط اور دلچسپی کا بھی ضرور خیال رکھتے تھے اور لمبی اور بیزار کن تقریروں سے پرہیز کرتے تھے۔آپ کے صحابہ بھی آپ کی اسی سنت پر عمل پیرا تھے۔
صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک روز وعظ ونصیحت کی مجلس کرتے تھے،سامعین کا مطالبہ ہوا کہ روزانہ مجلس ہو اور روزانہ وعظ کہیں۔لیکن صحابی رسول کا جواب یہ صادر ہوا کہ میں وعظ وتبلیغ کے سلسلے میں تمہاری اسی طرح رعایت کرتا ہوں جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رعایت کرتے تھے،محض اس وجہ سے کہ کبھی ہمارے اوپر اکتاہٹ اور بیزاری نہ طاری ہوجائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے خطبے میں اختصار ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ لمبی نماز اور مختصر خطبہ خطیب کے سمجھ دار ہونے کی علامت اور دلیل ہے۔
اس تعلق سے چند گزارشات پر عمل کرکے طوالت سے بچا جاسکتا ہے۔
(۱)- جلسے دیر سے نہ شروع کیے جائیں،بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کی عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد جلد سے جلد جلسہ شروع کردیا جائے۔جلسے کے اشتہار میں بھی اس