کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 6
اکثر جلسوں کی بے مقصدیت کا حال یہ ہوتا ہے کہ تیاریاں ہو رہی ہیں،رضا کار دوڑ دھوپ کر رہے ہیں(وہ رضا کار جن میں سے اکثر چہرے مہرے سے بھی مسلمان نہیں معلوم ہوتے)کھاناپک رہا ہے،شامیانہ لگ رہا ہے،مہمانوں کی آمد آمد ہے۔مگر قریب میں مسجد ہوتی ہے،اذان نماز ہوتی ہے،مگر دین کے یہ سپاہی تن من دھن سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں،اکا دکا جو پہلے سے نماز کے پابند ہوتے ہیں ان کے علاوہ باقی سب ’’دین کے کام‘‘ میں مشغول رہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ کسی وقت میں جب ٹی وی اور موبائل کا چلن زیادہ نہیں تھا اور سینما بینی کے بعض لوگ عادی ہوتے تھے اس وقت جلسوں کے اس قسم کے رضا کار جلسے کی رات ’’ دینی کاموں‘‘ سے فارغ ہوکر اس شوق کی تکمیل میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔
محفل وعظ تو تا دیر رہے گی قائم یہ ہے مے خانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں
بہر حال جلسے کے انعقاد سے قبل منتظمین کو چاہیے کہ جلسے کے اہداف و مقاصد طے کریں اور اپنا ٹارگیٹ متعین کر لیں۔ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ان کی جد وجہد ہو،اور بعد از جلسہ جائزہ لیں کہ کیا کھویا کیا پایا۔اسی تناظر میں جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا حکم لگایا جائے۔کسی جلسے کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ دیر رات تک چلا،یا اس میں فلاں مشہور مقرر کی شرکت اور تقریر ہوئی،یا سامعین کی تعداد بہت زیادہ تھی،یا اس کا نظم ونسق بہت اچھا تھا،وغیرہ وغیرہ۔بلکہ جلسہ کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ عوام کے قلوب واذہان کو جنجھوڑنے میں کتنا کامیاب رہا۔اس سے معاشرہ کی کیا اصلاح ہوئی،کس برائی کا اس سے خاتمہ ہوا،کس اچھائی کے فروغ کا سبب بنا۔۔الخ