کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 5
الفاظ سے تعبیر کریں۔لیکن ظاہر ہے کہ ایک جلسے سے دین کی مکمل تبلیغ اور معاشرے کی تمام خرابیوں کی اصلاح تو ہونے سے رہی۔اس لیے کسی ایک یا دو ہدف اور ٹارگیٹ کو لے کر چلنا چاہیے۔مثلا شادی بیاہ کی فضول رسموں کا خاتمہ،جہیز کی روک تھام،نظافت و صفائی،اقامت صلاۃ۔۔الخ،پھر دیکھنا چاہیے کہ جلسے سے متوقع اصلاح ہوئی یا ہورہی ہے یا نہیں۔
بعض جلسوں کے منتظمین کے اقوال واعمال وتصرفات بول رہے ہوتے ہیں کہ یا تو انھیں جلسے کے مقصد کا ہی پتہ نہیں،یا اگر پتہ ہے تو مقصد وہ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے بلکہ کچھ اور ہے۔ایک جلسے کے منتظم نے میرے سامنے بڑی بیباکی اور جرأت سے کہا کہ جلسے سے میرا مقصد ’’شکتی پردرشن‘‘(طاقت کا مظاہرہ)ہے۔یعنی یہ دکھانا کہ ہماری تنظیم بڑی فعال ہے،ہمارے ساتھ عوام کی طاقت ہے۔۔وغیرہ وغیرہ۔ان کی تنظیم کی طرف سے ہر سال دو روزہ اجلاس پابندی سے ہوتا ہے اور ہر مرتبہ لاکھ سے کم خرچ نہیں ہوتا ہوگا۔حاصل؟ شکتی پردرشن۔
معلوم ہوا کہ بہار وبنگال کے علاقوں میں اکثر جلسے مدارس کے چندے کے لیے ہوتے ہیں۔جلسے کے مقررین اپنی تقریروں سے اسی جلسے میں عوام سے مدرسے کے لیے پیسے نکلواتے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ جو مقرر اپنی چرب بیانی اور طلاقت لسانی کے بل پر جتنا زیادہ پیسہ مدرسہ کی جھولی میں گروادے اتنا ہی وہ کامیاب ہے۔
مقصد کے ادراک سے غافل صرف منتظمین اور مقررین ہی نہیں ہوتے بلکہ سامعین با تمکین بھی ہوتے ہیں۔وہ جلسوں کے بعد مقررین کو نمبردیتے ہیں،فلاں کی تقریر ایک نمبر کی رہی اور فلاں کی۔۔الخ۔انھیں اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ کس نے کیا کہا،کس نے دلائل کی روشنی میں بات کی اور کس نے ہوائی فائرنگ کی۔وہ مقرر کی اچھل کود،ایکٹنگ،لفاظی اور بے سر وپیر کے قصے کہانی پر نمبر دیتے چلے جاتے ہیں۔