کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 3
اضافہ فرمائے۔آمین۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عمل اور ہر کوشش کا محاسبہ کرتے رہنا،جائزہ لیتے رہنا اور نفع و نقصان کے تناسب پر نظر رکھنا زندہ قوموں کا شعار ہوتا ہے۔زمانے کے انقلابات کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں جن کو سمجھنا اور برتنا ضروری ہوتا ہے۔کام چاہے درس و تدریس کا ہو یا وعظ و ارشاد کا،معیشت و تجارت کا ہو یا انتظام و سیاست کا،نظر ثانی اور احتساب سے اس میں تازگی اور نشاط آتی ہے۔مراجعہ اور جائزے سے اس میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
علماء و مصلحین نے دینی جلسوں کے تعلق سے بھی احتساب اور جائزے کے فار مولے پر عمل کرنے میں الحمدللہ بخل یا تفریط سے کام نہیں لیا ہے،بلکہ وہ اسے بھی اپنی تقریر و تحریر کا موضوع بناتے رہتے ہیں۔فی الحال ہمارا حافظہ اس نوع کی جن تحریروں کی نشاندہی کر رہا ہے ان میں دس بارہ سال قبل مجلہ آثار جدید میں مولانا محمد احمد صاحب اثری سابق صدر مدرس جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ کا مضمون یا اداریہ،پانچ سات سال قبل ماہنامہ السراج جھنڈا نگر نیپال میں مولانا شمیم احمد صاحب ندوی ناظم جامعہ سراج العلوم نیپال کا اداریہ،تین چار سال قبل ماہنامہ نوائے اسلام دہلی میں مولانا عزیز عمر سلفی صاحب کا اداریہ،ڈیڑھ دو سال قبل ماہنامہ نوائے اسلام میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)کا مضمون جو بعد میں روزنامہ اخبار راشٹریہ سہارا میں بھی شائع ہوا تھا۔ماہنامہ الاحسان دہلی کے بعض شماروں میں مولانا عبدالمعید صاحب مدنی نے بھی جلسوں اور کانفرنسوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔اسی طرح ماہنامہ فری لانسر ممبئی میں اس موضوع پر اچھا خاصا مواد شائع ہو چکاہے۔اردو اخبارات میں مولانامجیب بستوی صاحب کے وقتا فوقتا شائع ہونے والے مراسلے بھی