کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 15
ادھر کچھ دنوں سے یہ صورت حال سامنے آرہی ہے کہ جلسہ اور کانفرنس کرانے والے حضرات بعض مرتبہ اپنے جلسوں کے ساتھ سیمینار کے انعقاد کا بھی اعلان کرتے ہیں اور اہل قلم کو مقالہ لکھنے اور سیمینار میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔لیکن اس طرح کے سیمیناروں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ منتظمین کی ساری توجہ جلسہ اور اس کے متعلقات پر ہے۔سیمینار مکمل طور سے حاشیہ پر رہتا ہے۔اس کی نشستوں میں بد نظمی،بے ترتیبی اور افراتفری کا ماحول رہتا ہے۔مقالہ نگاران جو ہفتوں یا مہینوں کی عرق ریزی سے بیش قیمت معلومات یکجا کرکے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے حاضر ہوتے ہیں ان کی ساری محنت اور قربانی ھباء منثورا ہوتی نظر آتی ہے۔انھیں اپنی خون جگر سے لکھی گئی تحریروں کو یا تو سنانے کا موقع نہیں ملتا یا سننے والے وہاں موجود نہیں ہوتے۔اور اس قسم کے پروگراموں کے مقالات بالعموم شائع بھی نہیں ہوپاتے۔یہ سب دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصل مقصد سیمینار یا کسی سنجیدہ اور علمی پروگرام کا انعقاد نہیں بلکہ اسی نام پر ان حضرات کو بھی اپنے پروگرام میں جمع کرنا مقصد ہوتا ہے جو جلسوں اور کانفرنسوں کے نام پر جمع نہیں ہوا کرتے۔ جلسوں کے بعض منتظمین یہ ہتھکنڈہ بھی اپناتے ہیں کہ اجازت یا منظوری لیے بغیر مقرر کا نام اشتہار میں شائع کر دیتے ہیں پھر اسی حوالے سے اس پر شرکت کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح آدمی کو شرکت پر مجبور کیا جاسکے گا۔میرے ساتھ کم از کم چار پانچ واقعے اس طرح کے ہو چکے ہیں لیکن الحمدللہ میں نے کبھی بھی ان کے ہتھکنڈے کا شکار بننا قبول نہیں کیا۔بعض مرتبہ بحیثیت صدر اجلاس میرا نام شائع کرکے استحصال کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش بھی رائیگاں ہی گئی۔اب کوئی بتلائے کہ دین اور اصلاح کے نام پر منعقد ہونے والے جلسوں میں اس قسم کی بے ایمانی،بد دیانتی یا بلیک میلنگ کی کوئی گنجائش ہے؟ جو لوگ ان پس