کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 14
میرے وطن مؤ اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے وقتا فوقتا جلسوں میں شرکت،تقریر اور بسا اوقات صدارت کے لیے مجھے بھی بلاوا آتا رہتا ہے،لیکن مذکورہ بالا نوعیت کے تام جھام والے جلسوں کی بے سمتی دیکھ کر ابتدا میں تو میں نے منتظمین اور داعیان کی توجہ ان محل نظر امور کی طرف دلائی جن میں بعض کا تذکرہ سطور سابقہ میں ہوا اور اصلاح کی درخواست کی۔خاص طور سے جلسوں کو عشاء کی نماز کے بعد جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا،جو کوئی مشکل کام نہیں۔منتظمین اس کا وعدہ کرتے،مگر آخر کار معمول میں کوئی فرق نہ آتا اور وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ والی بات رہتی۔ آخر کار مایوس ہوکر میں نے اس قسم کے جلسوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ویسے بھی میری اپنی مشغولیات اور ذمہ داریاں اس راہ میں حائل رہتی ہیں۔پھر بھی جن جلسوں میں خیر کا پہلو نظر آتا ہے،فوائد زیادہ اور نقصانات کم محسوس ہوتے ہیں ان میں دعوتی تقاضوں کے مدنظر حسب موقع شرکت کرلیتا ہوں۔مثلاً مغرب کے بعد کا پرو گرا م ہو،مسجد کاپروگرام ہو،عشاء کے بعد جلد ختم ہونے والا پروگرام ہو۔وغیرہ وغیرہ۔ البتہ سیمینار جس میں علمی ودعوتی موضوعات پر مقالات پیش کیے جاتے ہیں یا علمی انداز کی بامقصد تقریریں ہوتی ہیں اور علم وادب سے دل چسپی رکھنے والے لوگ شریک ہوتے ہیں تو ا س نوعیت کے سیمیناروں سے میری دلچسپی ہے اور گنجائش ہونے کی صورت میں ان میں شرکت کرتا ہوں۔اس طرح کے سیمیناروں کے مقالات عموماً کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں جو اپنے موضوع پر دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں اور لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں،جیسے: ’’علوم الحدیث :مطالعہ وتعارف‘‘(علی گڈھ)’’مدارس کے نصاب تعلیم میں قرآن کا حصہ‘‘(کلیۃالصفا،سدھارتھ نگر)وغیرہ۔