کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 13
مسلک والوں پرطعن وتشنیع کے تیر برساتے ہیں،اور ان کے علماء اور کتابوں وغیرہ پر دل آزار تبصرے کرتے ہیں اور تمام اسلامی آداب واخلاق کو بھول جاتے ہیں۔اختلافی امور ومسائل پر گفتگو کے بھی کچھ آداب وضوابط ہیں،اس موضوع پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔لیکن بعض جوشیلے اور بے شعور قسم کے لوگوں میں محبوب بننے کے لیے کچھ مقررین بھڑکاؤ تقریریں کرکے عوام میں نفرت کا بیج بوتے ہیں پھر اس کی فصل کاٹتے ہیں۔ایسے مقررین تقریباً ہر فرقے اور ہر مسلک میں پائے جاتے ہیں اور ان کو اکسانے والے اور شاباشی دینے والے بھی۔مگر عوام وخواص کا سنجیدہ طبقہ اس اسلوب کو پسند نہیں کرتا۔
مقررین کے تعلق سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ان میں بعض کا نذرانہ یافیس بڑی اونچی ہوتی ہے،ایک ایک تقریر پر بسا اوقات نصف لاکھ بلکہ اس سے بھی اوپر کا مطالبہ ہوتا ہے،ہوائی سفر،عالیشان ہوٹل وغیرہ کا خرچ اس پر مستزاد۔بعض مقررین اس سلسلے میں کسی طرح کا رسک لینے کے بجائے اپنے اکاؤنٹ میں پیشگی رقم منگوالیتے ہیں۔اپنی مشغولیت اور مطلوبہ تاریخوں میں اپنے خالی نہ ہونے کا حوالہ دے کر بھی منتظمینِ جلسہ کا استحصال کرتے اور من مانی فیس وصول کرتے ہیں۔ع
بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں
لیکن بیچاری عوام یہ سب کچھ دین کے نام پر سہہ جاتی ہے اور اپنے من چاہے مقرر کو ہر حال میں اسٹیج پر دیکھنا چاہتی ہے۔
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند