کتاب: اصلاحی جلسوں کی اصلاح کی ضرورت - صفحہ 11
لیکن اگر دور دراز سے آئے ہوئے سامعین کے واجبی اور غیر متکلفانہ کھانے کا بندو بست ہے تو وہ اس سے مستثنی ہے)اسی طرح ضرورت سے زیادہ روشنی،قمقمے،دیدہ زیب اسٹیج،مہنگے فرنیچرس،مہمانوں کے لیے پر تعیش گاڑیاں،مہنگے ہوٹلوں میں ان کا قیام وطعام،وغیرہ وغیرہ۔ان تحسینیات پر بسا اوقات ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپئے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ اخراجات اسی قوم اور ملت کی جیبوں سے پورے ہوتے ہیں جو مجموعی اعتبار سے غریب،پسماندہ اور مفلوک الحال ہے،جس کی عبادت گاہوں کے معمولی معمولی اخراجات کے لیے در در بھٹکنا پڑتا ہے،جس کے بچوں کی ابتدائی تعلیم تک کا انتظام نہیں ہے یا ہے تو بہت ہی ناکافی۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اجتماعی کام ہیں جو وسائل واسباب کے فقدان یا کمی کی وجہ سے انجام پانے سے رہ جاتے ہیں،جیسے غریب بچوں بچیوں کی شادی،مریضوں کا علاج معالجہ،پینے کے لیے صاف پانی،سر چھپانے کے لیے جھونپڑی،روزگار،وغیرہ۔ ایسے ماحول اور معاشرے میں یہ ٹھاٹھ باٹھ کے جلسے اور ان کے ہوش ربا اخراجات بھلا کیوں کر درست سمجھے جاسکتے ہیں۔کیا ان سے اسی اسراف اور فضول خرچی کی بو نہیں آتی جس پر بسا اوقات جلسوں میں تقریریں بھی ہوتی ہیں اور فضول خرچی کرنے والوں کو بمطابق اعلان قرآنی شیطان کا بھائی بتایا جاتا ہے۔ بعض نامور مقررین کا نذرانہ مقدار کے اعتبار سے ایسا ہوتا ہے کہ سن کر اوسان خطا ہوجائیں۔لیکن جلسے والے ان پر اس قدر مہربان ہوتے ہیں کہ ان کی ہر خواہش کی تکمیل کے لیے تیار رہتے ہیں،چاہے وہ خواہشیں ایسی ہی کیوں نہ ہوں کہ ع ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے مذکورہ بالا معروضات کو سامنے رکھ کر اور جلسوں کے حقیقی مقاصد کو ملحوظ رکھ کر