کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 9
کیش ہمرکابی سے محروم نہ رہ جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن سے بلایا گیا۔ قبائل کو آدمی بھیج کر ارادہ پاک کی اطلاع دی گئی۔ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھم کو رفاقت کی بشارت سنائی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کو تیاری کا حکم دیا۔ 25 ذیقعدکومسجد نبوی میں جمعہ ہوا اور وہیں 26کی صبح روانگی کا اعلان ہو گیا۔ جب 26 کی صبح منور ہوئی تو چہرہ انورسے روانگی کی مسرتیں نمایاں ہو رہی تھیں۔ غسل کر کے لباس تبدیل فرمایا اور ادائے ظہر کے بعد، حمد و شکر کے ترانوں میں مدینہ منورہ سے باہر نکلے، اس وقت ہزارہا خدام امت اپنے نبی نعمت کے ہمرکاب تھے۔ یہ قافلہ مقدس مدینہ منورہ سے 6میل دور، ذی الحلیفہ میں پہنچ کر رکا اور شب بھر اقامت فرمائی۔ دوسرے روز حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ غسل فرمایا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جسم پاک پر اپنے ہاتھوں سے عطر ملا۔ راہ سپارہونے سے پہلے آپ پھر اللہ کی حاضری میں کھڑے ہو گئے اور بڑے دردوگدازسے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھرقصواپرسوارہو کر احرام باندھا اور ترانہ لبیک بلند کیا۔ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ۔ اس ایک صدائے حق کی اقتداء میں ہزارہاخداپرستوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ آسمان کا جوف حمد خدا کی صداؤں سے لبریز ہو گیا اور دشت و جبل توحید کے ترانوں سے گونجنے لگے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورسرورعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جہاں تک انسان کی نظر کام کرتی تھی، انسان ہی انسان نظر آتے تھے۔ جب اونٹنی کسی اونچے ٹیلے پرسے گزرتی تو تین تین مرتبہ صدائے تکبیر بلند فرماتے۔ آوازہ