کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 7
نے جانا ہے لیکن ان جانے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق کہنا پڑتا ہے۔
پی گئی کتنوں کا لہو تیری یاد
غم تیرا کتنے کلیجے کھا گیا
اس قبیل کی چند عظیم المرتبت ہستیوں کے سفر آخرت کی، دل و دماغ کے بادشاہ، خطابت کے شہسوار، قلم کے دھنی اور اردو زبان کے سب سے بڑے ادیب حضرت مولانا عبدالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے’’انسانیت موت کے دروازہ پر”کے نام سے منظر کشی کی تھی۔ یہ پر تاثیر، پر درد، دل گذار اور دل سوزکتاب عبرت اس قدر مؤثر ہے کہ شاید ہی کوئی سنگ دل ہو جواس کا مطالعہ کرے اور اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں نہ لگ جائیں۔ بالخصوص مولائے کل دانائے سبل، ختم الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سفرملک بقا کا تذکرہ دل تھام کر نہیں، دل پر پتھر رکھ کر پڑھنا پڑتا ہے، کون ظالم ہے جو یہ پڑھے:۔
’’خبر وفات کے بعد مسلمانوں کے جگر کٹ گئے، قدم لڑکھڑا گئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں خون بہانے لگیں، ارض وسماسے خوف آنے لگا، سورج تاریک ہو گیا، آنسوبہہ رہے تھے اور تھمتے نہیں تھے۔ کئی صحابہ رضوان علیہم حیران وسرگردان ہو کر آبادیوں سے نکل گئے، کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا، جو بیٹھا تھا، بیٹھا رہ گیا، جو کھڑا تھا، اسے بیٹھ جانے کا یارانہ نہ ہوا، مسجدنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیامت سے پہلے قیامت کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔‘‘
اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے آبشار نہ بہہ نکلے ؟
٭٭٭