کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 6
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
موت کو بھول گیا دیکھ کے جینے کی
بہار دل نے پیش نظر انجام کو رہنے نہ دیا
اگر ہم اس دنیا کا بغور جائزہ لیں تو یہ ہمیں ایک مرقع عبرت، افسانہ حسرت اور آئینہ حیرت کے روپ میں نظر آئے گی۔ دنیا کے سٹیج پرجن عظیم بادشاہوں نے جاہ و جلال کے جلوے دکھائے وہ بھی چل بسے، جن لوگوں نے دنیا کی آرائش و زیبائش چار چاند لگائے وہ بھی نہ رہے، وہ اہل کمال جن سے استفادہ اور کس فیض کرنے کے لیئے ایک دنیا ان کے پاس آتی تھی، وہ بھی رخصت ہو گئے اور بزرگان دین حتی کہ انبیاء کرام علیہم السلام بھی جن سے فرشتے مصافحہ کرتے تھے، یہاں سے رخت سفرباندھ گئے۔ الغرض موت سے کسی کو مفر نہیں۔ بو علی سینا ایسے حکیم کو بھی کہنا پڑا۔
از قعر گل سیاہ تا اوج زحل
کردم ہمہ مشکلات گیتی راحل
بیروں جستم زقید ہر مکر و حیل
ہر بند کشادہ شد مگر بند اجل
انسانی زندگی کے آخری لمحات کو زندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس وقت بچپن سے لے کراس آخری لمحے تک کے تمام بھلے اور برے اعمال پردہ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں۔ ان اعمال کے مناظر کو دیکھ کر کبھی تو بے ساختہ انسان کی زبان سے درد عبرت کے چند جملے نکل جاتے ہیں اور کبھی یاس وحسرت کے چند آنسوآنکھ سے عارض پر ٹپک پڑتے ہیں۔ اگرچہ دنیا کے اس پل پرسے گزر کر عقبیٰ کی طرف ہرانسان