کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 44
کی موجودگی میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہم لوگوں سے کیا برتاؤ تھا؟جب وہ خلیفہ ہو گئے تو معلوم نہیں کیا کریں ؟آپ بارگاہ الٰہی میں چلے جا رہے ہیں، غور کر لیجئے، آپ اللہ تعالیٰ کواس کا کیا جواب دیں گے ؟”میں خداسے کہوں گا میں نے تیرے بندوں پراس شخص کو مقرر کیا ہے جوسب سے اچھا تھا۔ پھر فرمایا:جو کچھ میں اب کہہ رہا ہوں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔‘‘ وصیت نامہ تکمیل مشاورت کے بعد آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب کیا اور فرمایا:عہد نامہ خلافت لکھئے۔ ابھی چندسطریں لکھی گئی تھیں کہ آپ کو غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دئیے کہ”میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ”کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ "تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:جو کچھ لکھا ہے، وہ پڑھ کرسناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری عبارت پڑھ دی تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا:”خدا تعالیٰ تم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘[1] وصیت نامہ تیار ہو گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک انصاری کے ہاتھ مسجدمیں بھیج دیا تاکہ مسلمانوں کوسنادیں اور خود بھی بالاخانے پر تشریف لے گئے۔ شدت ضعف کے باعث اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ اس واسطے ان کی بی بی اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں ہاتھوں سے سنبھالے ہوئے تھیں۔ نیچے آدمی جمع تھے، ان سے
[1] الفاروق