کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 35
عمر مبارک قمری حساب سے 63سال اور 4دن ہوئی۔ إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم میں اضطراب عظیم خبر وفات کے بعد مسلمانوں کے جگر کٹ گئے، قدم لڑکھڑا گئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں خون بہانے لگیں۔ ارض وسماء سے خوف آنے لگا، سورج تاریک ہو گیا، آنسوبہہ رہے تھے اور نہیں تھمتے تھے۔ کئی صحابہ حیران وسرگردان ہو کر آبادیوں سے نکل گئے۔ کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا، جو کھڑا تھا اس کو بیٹھ جانے کا یارانہ ہوا۔ مسجد نبوی قیامت سے پہلے قیامت کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور چپ چاپ حجرہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں داخل ہو گئے۔ یہاں حضرت رحمۃ العالمین کی میت پاک پڑی تھی۔ حضرت صدیق نے چہرہ اقدس سے کپڑا اٹھا کر پیشانی مبارک پربوسہ دیا اور پھر چادر ڈھک دی اور روکر کہا:۔ ’’حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر میرے ماں باپ قربان!آپ کی زندگی بھی پاک تھی اور موت بھی پاک ہے۔ واللہ!اب آپ پر دو موتیں وارد نہیں ہوں گی۔ اللہ نے جو موت لکھ رکھی تھی، آپ نے اس کا ذائقہ چکھ لیا اور اب اس کے بعد موت ابد تک آپ کا دامن نہ چھوسکے گی۔ ‘‘ جب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجدنبوی میں تشریف لائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ غایت بے بسی سے نڈھال کھڑے تھے اور بڑے درد و جوش سے یہ اعلان کر رہے تھے۔ ’’منافقین کہتے ہیں کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)