کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 32
تھیں۔ سرکاردوعالم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس پاک نظارے کو جو حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی پاک تعلیم کا نتیجہ تھا، بڑے اشتیاق سے ملاحظہ فرمایا اور جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوامسجدمیں تشریف لا رہے ہیں، نمازی بے اختیارسے ہو گئے، نماز ٹوٹنے لگیں اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو امامت کرا رہے تھے، نے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اشارہ مبارک سے سب کوتسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھا کر پھر حجرے کا پردہ ڈال دیا۔ اجتماع اسلام کے لئے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا یہ جلوہ زیارت کا آخری تھا اور شاید یہ انتظام بھی خود قدرت کی طرف سے ہوا کہ رفیقان صلوۃ جمال آراء کی آخری جھلک دیکھتے جائیں۔
9 ربیع الاول کی حالت صبح سے نہایت عجیب تھی۔ ایک سورج بلند ہو رہا تھا اور دوسراسورج غروب ہو رہا تھا۔ کاشانہ نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)میں پے درپے غشی کے بادل آئے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے وجوداقدس پر چھا گئے۔ ایک بے ہوشی گزر جاتی تھی تو دوسری پھر وارد ہو جاتی تھی۔ انہیں تکلیفوں پر پیاری بیٹی کو یاد فرمایا۔ وہ مزاج اقدس کا یہ حال دیکھ کرسنبھل نہ سکیں۔ سینہ مبارک سے لپٹ گئیں اور رونے لگیں۔ بیٹی کواس طرح نڈھال دیکھ کر ارشاد فرمایا۔
’’میری بیٹی!رو نہیں، میں دنیاسے رخصت ہو جاؤں گا۔ تو إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنا۔
اسی میں ہر شخص کے لئے سامان تسکین موجود ہے۔ "حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا:کیا آپ کے لیے بھی؟فرمایا:ہاں، اس میں میری بھی تسکین ہے۔