کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 31
صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد فرمایا۔ یہ تعداد میں 40 تھے۔ پھر اثاث البیت کی طرف توجہ فرمائی۔ اس وقت کاشانہ نبوی کی ساری دولت صرف سات دینار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے فرمایا:انہیں غریبوں میں تقسیم کر دو، مجھے شرم آتی ہے کہ رسول اپنے اللہ سے ملے اور اس کے گھر میں دولت دنیا پڑی ہو۔ "اس ارشاد پر گھر کا گھر صاف کر دیا گیا۔ آخری رات کاشانہ نبوی میں چراغ نبوی جلانے کے لئے تیل تک موجود نہیں تھا۔ یہ ایک پڑوسی عورت سے ادھار لیا گیا۔ گھر میں کچھ ہتھیار باقی تھے۔ انہیں مسلمانوں کو ہبہ کر دیا گیا۔ زرہ نبوی، 30 صاع جوکے عوض ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ چونکہ ضعف لمحہ بہ لمحہ ترقی پذیر تھا۔ اس واسطے بعض درد مندوں نے دوا پیش کی مگر انکار فرمایا۔ اسی وقت غشی کا دورہ آ گیا اور تیمار داروں نے منہ کھول کر دوا پلا دی۔ افاقہ کے بعد جب اس کا احساس ہوا تو فرمایا:اب یہی دوا پلانے والوں کو بھی پلائی جائے۔ یہ اس لئے کہ جس وجود باوجود کی صحت کے لئے ایک دل گرفتہ دعائیں کر رہی تھی، وہ اپنے اللہ کی دعوت کواس طرح قبول کر چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش باقی تھی اور نہ دوا کی۔ یوم وفات 9 ربیع الاول(دو شنبہ)کو مزاجِ اقدس میں قدرے سکون تھا، نماز صبح ادا کی جا رہی تھی کہ حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مسجد اور حجرہ کا درمیانی پردہ سرکادیا۔ اب چشم اقدس کے روبرو نمازیوں کی صفیں مصروف رکوع وسجود