کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 29
1۔ کوئی مشرک عرب میں نہ رہے۔2۔ سفیروں اور وفود کی بدستورعزت و مہمانی کی جائے۔3۔ قرآن پاک کے متعلق کچھ ارشاد فرمایا جو راوی کو یاد نہیں رہا۔ سرکارپاک(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)علالت کی تکلیف اور بے چینی کے باوجود گیارہ روز تک برابرمسجدمیں تشریف لاتے رہے۔ جمعرات کے روز مغرب کی نماز بھی خود پڑھائی اور اس میں سورہ مرسلات تلاوت فرمائی۔ عشاء کے وقت آنکھ کھولی اور دریافت فرمایا:”کیا نماز ہو چکی؟‘‘مسلمانوں نے عرض کیا:مسلمان آپ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ لگن میں پانی بھروا کرغسل فرمایا اور ہمت کر کے اٹھے، مگر غش آ گیا۔ تھوڑی دیر میں پھر آنکھ کھولی اور فرمایا:”کیا نماز ہو چکی؟‘‘لوگوں نے عرض کیا:یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)!مسلمان آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ’’اس مرتبہ پھر اٹھنا چاہا، مگر بے ہوش ہو گئے، کچھ دیر کے بعد پھر آنکھ کھولی اور وہی سوال دہرایا:‘‘کیا نماز ہو چکی ہے ؟”لوگوں نے عرض کیا:‘‘یارسول اللہ!سب لوگوں کو حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہی کا انتظار ہے۔ تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا اور جب اٹھنا چاہا تو غشی آ گئی۔ افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا۔ا بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا دیں۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا:ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت رقیق القلب آدمی ہیں جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھاسکیں گے۔‘‘ ارشاد فرمایا:’’وہی نماز پڑھائیں۔ ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال یہ تھا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد امام مقرر ہو گا، لوگ اسے لازمامنحوس خیال کریں گے۔ روایت ہے کہ اس وقت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما نہیں تھے۔ اس واسطے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آگے بڑھایا گیا مگر حضور نے تین مرتبہ فرمایا: