کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 27
میرے جسم کا پیرہن اور میرے سفرزندگی کا توشہ ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض ادا کر دئیے، مگر ان کے حقوق باقی ہیں جو شخص امت کے نفع اور نقصان کا متولی ہو، اس کا فرض ہے کہ وہ انصار نکو کار کی قدر افزائی کرے اور جن انصارسے لغزش ہو جائے، ان کے متعلق درگزرسے کام لے۔ ‘‘
حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حکم دیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید شام پر حملہ اور ہوں اور اپنے شہید والد کا انتقام لیں۔ اس پر منافقین کہنے لگے۔ ایک معمولی نوجوان کواکابراسلام پرسپہ سالارمقرر کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پیغمبرمساوات نے ارشاد فرمایا۔
’’آج اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری پر تم کو اعتراض ہے اور کل اس کے باپ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری پر تم کو اعتراض تھا۔ خدا کی قسم!وہ بھی اس منصب کے مستحق تھے اور یہ بھی۔ وہ بھی سب سے زیادہ محبوب تھے اور اس کے بعد یہ بھی سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘
پھر فرمایا:حلال و حرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا۔ میں نے وہی چیز حلال کی ہے جسے قرآن نے حلال کیا اور اسی کو حرام قرار دیا ہے، جسے خدا نے حرام کیا ہے۔ ‘‘
اب آپ اہل بیت کی طرف متوجہ ہوئے کہ کہیں رشتہ نبوت کا غرور انہیں عمل وسعی سے بیگانہ نہ بنا دے۔ ارشاد فرمایا۔
’’اے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! اور اے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا!خدا کے ہاں کے لئے کچھ کر لو۔ میں تمہیں خدا کی گرفت سے نہیں بچاسکتا۔‘‘