کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 26
ہمارے زر و مال آپ پر قربان ہو جائیں۔ "لوگوں نے ان کو تعجب سے دیکھا کہ حضور انور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تو ایک شخص کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں، پھراس میں رونے کی کونسی بات ہے، مگر یہ بات انہوں نے سمجھی، جورو رہے تھے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بے کلی نے خیال اشرف کودوسری طرف مبذول کر دیا۔ ارشاد فرمایا:۔ ’’میں سب سے زیادہ جس کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں، وہ بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اگر میں اپنی امت میں سے کسی ایک شخص کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کر سکتا تووہ بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے لیکن اب رشتہ اسلام میری دوستی کی بنا ہے اور وہی کافی ہے۔ مسجد کے رخ پر کوئی دریچہ بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریچہ کے سواباقی نہ رکھا جائے۔ ‘‘ انصار مدینہ حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے زمانہ علالت میں برابر رو رہے تھے۔ حضرت بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے انصار کو روتے دیکھا، دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا:۔ "آج ہمیں محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی صحبتیں یاد آ رہی ہیں۔ "انصار کی اس دردمندی اور بے دلی کی اطلاع سمع مبارک تک پہنچ چکی تھی۔ ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو!میں اپنے انصار کے معاملہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں، عام مسلمان روز بروز بڑھتے جائیں گے مگر میرے انصار”کھانے میں نمک”کی طرح رہ جائیں گے۔ یہ لوگ