کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 22
کہتا ہے۔ یہاں سے واپس آئے تو منبر نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر جلوہ طراز ہوئے اور ارباب صدق وصفاسے نہایت دردمندانہ لہجہ میں مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا۔ ’’دوستو!اب میں تم سے آگے منزل آخرت کی طرف چلا جا رہا ہوں تاکہ بارگاہ ایزدی میں تمہاری شہادت دوں۔ واللہ!مجھے یہاں سے وہ اپنا حوض نظر آ رہا ہے جس کی وسعت ایلہ سے مجقہ تک ہے، مجھے تمام دنیا کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ اب مجھے یہ خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔ البتہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا میں مبتلا نہ ہو جاؤ اور اس کے لئے آپس میں کشت و خون نہ کرو، اس وقت تم اسی طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں ہلاک ہوئیں۔ ‘‘ کچھ دیر کے بعد قلب صافی میں زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ انہیں حدود شام کے عربوں نے شہید کر دیا تھا۔ فرمایا!اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوج لے کر جائیں اور اپنے والد کا انتقام لیں۔ ان ایام میں خیال مبارک زیادہ تر گزرے ہوئے نیاز مندوں ہی طرف مائل محبت رہتا تھا۔ ایک رات آسودگان بقیع کا خیال آ گیا۔ یہ عام مسلمانوں کا قبرستان تھا۔ جوش محبت سے آدمی رات اٹھ وہاں تشریف لے گئے اور عام امتیوں کے لئے بڑے سوزسے دعا فرماتے رہے۔ پھر یہاں کے روحانی دوستوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:۔ انابکم سلاحقون۔ میں اب جلد تمہارے ساتھ شامل ہو