کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 21
اور روشنی جمع ہے۔ اسے محکمی اور استواری کے ساتھ پکڑ لو۔ دوسرامرکزمیرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خداترسی کی وصیت کرتا ہوں۔ ‘‘ گویا یہ اجتماع امت کے لئے اہل و عیال کے حقوق و احترام کی وصیت تھی تاکہ وہ کسی بحث میں الجھ کر حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مختصرسے خاندان کے ساتھ بے لحاظی کا سلوک نہ کریں۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر رات ذوالحلیفہ میں ٹھہرے اور دوسرے دن مدینہ منورہ میں داخل ہو گئے۔ محفوظ و مامون حمد کرتے ہوئے اور شکر بجا لاتے ہوئے۔ ملک بقا کی تیاری حضورسرورعالم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مدینہ منورہ میں پہنچ کر۔ فسبح بحمد ربک واستغفرہ۔ کی تعمیل میں مصروف ہو چکے تھے۔ بارگاہ ایزدی کی حاضری کا شوق روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ صبح و شام معبود حقیقی کے ذکر و یادکی طلب تھی اور بس۔ رمضان المبارک میں ہمیشہ دس روز کا اعتکاف فرماتے تھے۔ 10ھ میں 20روز کا اعتکاف فرمایا۔ ایک دن حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہما تشریف لائیں تو ان سے فرمایا:پیاری بیٹی!اب مجھے اپنی رحلت قریب معلوم ہوتی ہے۔ انہی ایام میں شہدائے احد کی تکلیف، بے بسی کی شہادت اور مردانہ وار قربانیوں کا خیال آ گیا تو گنج شہیداں میں تشریف لے گئے اور بڑے دردوگذارسے ان کے لئے دعائیں کیں۔ نماز جنازہ پڑھی اور انہیں اس طرح الوداع کہی جس طرح ایک شفیق بزرگ، اپنے کم سن بچوں سے پیار کرتا ہے اور پھر انہیں الوداع