کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 20
ہیں، جس طرح یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں۔ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مار نے لگو۔ اے لوگو!تمہیں اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے، وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ اگرکسی نے جرم کیا تووہ خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہو گا۔ باپ بیٹے کے جرم کا ذمہ دار نہیں اور بیٹا باپ کے جرم کا ذمہ دار نہیں۔ اب شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی پرستش کی جائے گی۔ ہاں تم چھوٹی چھوٹی با توں میں اس کی پیروی کرو گے تو وہ ضرور خوش ہو گا۔ اے لوگو!توحید، نماز، روز ہ، زکوٰۃ اور حج یہی جنت کا داخلہ ہے۔ میں نے تمہیں حق کا پیغام پہنچا دیا ہے، اب موجود لوگ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہیں جو بعد میں آئیں گے۔‘‘ یہاں سے قربان گاہ میں تشریف لائے اور 63اونٹ خود ذبح فرمائے اور 37کوحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ذبح کرایا اور ان کا گوشت اور پوست سب خیرات کر دیا۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کو طلب کر کے سرکے بال اتروائے اور یہ موئے مبارک تبرکاتقسیم ہو گئے۔ یہاں سے اٹھ کر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا اور زمزم پی کر منیٰ میں تشریف لے گئے اور 12ذوالحجہ تک وہیں اقامت پذیر رہے۔ 13کوخانہ کعبہ کا آخری طواف کیا اور انصار و مہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف مراجعت فرمائی، جب غدیر خم پہنچے تو صحابہ کرام کو جمع کر کے ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو!میں بھی بشر ہوں۔ ممکن ہے اللہ کا بلاوا اب جلد آ جائے اور مجھے قبول کرنا پڑے۔ میں تمہارے لئے دو مرکز ثقل قائم کر چلا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت