کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 18
مزدلفہ میں میں نماز مغرب ادا کی اور سواریوں کو آرام کے لئے کھول دیا گیا۔ پھر نماز عشاء کے بعد لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرماتے رہے۔ محدثین رحمۃ اللہ علیہم لکھتے ہیں کہ عمر بھر یہی ایک شب ہے جس میں آپ نے تہجد ادا نہیں فرمائی۔ 10ذی الحج کو ہفتہ کے روز جمرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس میں آپ کے چچیرے بھائی فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ سوار تھے۔ ناقہ قدم بہ قدم جا رہی تھی۔ چاروں طرف ہجوم تھا۔ لوگ مسائل پوچھتے تھے اور آپ جواب دیتے تھے۔ جمرہ کے پاس ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کنکریاں چن کر دیں تو آپ نے انہیں پھینکا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو!مذہب میں غلو کرنے سے بچے رہنا، تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئی ہیں۔ ‘‘ تھوڑی تھوری دیر کے بعد فراق امت کے جذبات تازہ ہو جاتے تھے، آپ اس وقت ارشاد فرماتے تھے۔ ’’اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو، میں نہیں جانتا کہ شایداس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت آئے۔ ‘‘ میدان منیٰ اور غدیر خم کے خطبات یہاں سے منیٰ کے میدان میں تشریف لائے، ناقہ پرسوار تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہار تھامے کھڑے تھے۔ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے بیٹھے کپڑا تان کرسایہ کیے ہوئے تھے۔ آگے پیچھے اور دائیں بائیں مہاجرین، انصار، قریش اور قبائل کی صفیں، دریا کی طرح رواں تھیں اور ان میں ناقہ نبوی کشتی نوح کی طرح ستارہ نجات بن رہی تھی اور ایسامعلوم ہو رہا تھا کہ باغبان ازل نے قرآن کریم کے انوارسے صدق و اخلاص کی جونئی