کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 12
یہ فراوانی، آپ کے بعد آپ کی امت سے رابطہ اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گی۔ اس لئے اتحاد امت کا موضوع اپنے سامنے رکھ لیا اور پھر درد نبوت کی پوری توانائی اس موضوع پر صرف فرما دی۔ پہلے نہایت ہی درد انگیز الفاظ میں قیام اتحاد کی اپیل کی۔ پھر فرمایا کہ پسماندہ طبقات کو شکایت کا موقع نہ دینا تاکہ حصاراسلام میں کوئی شگاف نہ پڑ جائے۔ پھراسباب نفاق کی تفصیل پیش کر کے ان کی بیج کنی کا عملی طور پرسروسامان فرمایا۔ پھر واضح کیا کہ جملہ مسلمانوں کے اتحادکاسنگ اساس کیا ہے ؟آخری وصیت یہ فرمائی کہ ان ہدایات کو آئندہ نسلوں میں پھیلانے اور پہچانے کے فرض میں کوتاہی نہ کرنا۔ خاتمہ تقریر کے بعد حضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی ذاتی سرخروئی کے لئے حاضرین سے شہادت پیش کرتے ہوئے اس طرح بار بار اللہ کو پکارا کہ مخلوق خدا کے دل پگھل گئے، آنکھیں پانی بن گئیں اور روحیں انسانی جسموں کے اندر تڑپ تڑپ کر الامان اور الغیاث کی صدائیں بلند کرنے لگیں۔
حمد و صلوۃ کے بعد خطبہ حج کا پہلا درد انگیز فقرہ یہ تھا۔
اے لوگو!میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں کبھی دوبارہ جمع نہیں ہوں گے۔
اس ارشاد سے اجتماع کی غرض و غایت بے نقاب ہو کرسب کے سامنے آ گئی اور جس شخص نے بھی یہ ارشادسنا، تڑپ کے رہ گیا۔ اب اصل پیغام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’اے لوگو!تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہارا ننگ وناموس، اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ دن(جمعہ)یہ مہینہ(ذی الحج)