کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر - صفحہ 11
ولَهُ الـحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ، لَا إلَهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ۔ حمداس کے لئے، وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اس کے سواکوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ اس نے اپنے بندے کی امداد فرمائی اور اس کے لیے نے تمام قبائلی جمعیتیں پاش پاش کر دیں۔ 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام فرمایا۔ 9 کو جمعہ کے روز نماز صبح ادا کر کے منیٰ سے روانہ ہوئے اور وادی نمرہ میں آ ٹھہرے، دن ڈھلے میدان عرفات میں تشریف لائے تو ایک لاکھ 24 ہزارخداپرستوں کا مجمع سامنے تھا اور زمین سے آسمان تک تکبیر و تہلیل کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ اب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پرسوارہو کر آفتاب عالمتاب کی طرح کوہ عرفات کی چوٹی سے طلوع ہوئے تاکہ خطبہ حج ارشاد فرمائیں۔ پہاڑ کے دامن میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما، بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اصحاب صفہ اور عشرہ مبشرہ اور دوسری سینکڑوں اسلامی جماعتیں اور قبائلی جمعیتیں جلوہ فرما تھیں اور پہلی ہی نظرسے یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ والی امت اپنی امت کے موجودات لے رہے ہیں اور محافظ حقیقی کواس کا چارج سپرد فرما رہے ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری آنسو، جواس امت کے غم میں بہے، حجۃ الوداع کے خطبہ میں جمع ہیں، اس وقت دولت و حکومت کا سیلاب مسلمانوں کی طرف امڈا چلا آ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غم یہ تھا کہ دولت کی