کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 97
ہے جو اس واقع کے غیر معتبر ہونے کا ثبوت ہے۔ ایضاً: اس میں وہ الفاظ بھی نہیں جو مقرر صاحب نے بیان کئے ہیں۔ ثانیاً: فرمایا عمر یہ کیا ہے؟کہا حضور اللہ تعالی نے قرآن شریف میں فرمایا ہے الخ (ص57) روایات میں اس طرح کی کوئی بات ذکر نہیں ہے ہاں یہ ضرور ذکر ہے کہ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔کمافی الددرالمنثور ص180-181ج2ھکذا فی ابن کثیر) جبکہ مقرر صاحب امر واقعہ کے برخلاف اس طرح کہہ رہے ہیں کہ امیر عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت بطو ر دلیل پیش کی یہ یقینا سفید جھوٹ ہے۔ ثالثاً: امیر عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے جو صفائی پیش کی گئی ہے اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا اور تفسیر کبیر میں یہ واقعہ بایں الفاظ موجود ہے: فجاء اهل المنفق فشکوا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسال عمر عن قصته فقال عمر انه رد حکمك یارسول الله فجاء جبریل علیه السلام فی الحال و قال ان الفاروق......(تفسیر کبیر ص154ج10) منافقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شکایت رکھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس واقع کی حقیقت معلوم کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کے رسول اس نے آپ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا اس وقت جبریل آئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک فاروق..... دیکھئے ! نہ سند لکھی ہوئی ہے اور نہ ہی کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ ۔اور مقرر صاحب کے بیان کردہ الفاظ بھی نہیں ہیں اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ قرآنی آیت کو بطور دلیل پیش کیا ۔