کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 88
کے اعتبار سے سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اس میں داخل ہیں علاوہ ازیں ان چاروں میں سے ہر ایک میں یہ سب صفات موجود ہیں جبکہ مقرر صاحب کی تفسیر سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک صفت ایک کے لئے ہے جبکہ دوسری صفت دوسرے کے لئے خاص ہے مطلب یہ کہ چاروں صفتیں بیک وقت کسی ایک میں مجتمع نہیں ہوسکتیں۔
یعنی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ’’اَشِدَّائُ عَلیَ الْکُفَّارِ‘‘ نہیں بلکہ یہ صفت صرف عمر رضی اللہ عنہ کیلئے خاص ہے ذرا بتلاؤ کہ مانعین زکوۃ کے سامنے کون اس صفت کا زیادہ متصف تھا ؟سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو خود قتال کے قائل نہ تھے بلکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو کے بعد قائل ہوئے یعنی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے دشمنوں کے لئے سخت تھے۔
اسی طرح ’’رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ ‘‘ سے مراد فقط عثمان رضی اللہ عنہ نہیں اور ’’راکع ساجد ‘‘سے مراد صرف علی المرتضی رضی اللہ عنہ نہیں ہیں ۔حاشا و کلا۔
اس طرح کہنے سے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی توہین لازم آتی ہے اعتقادیہ ہونا چاہیئے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ ان اوصاف کے حامل تھے ہر ایک کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنۃ میں فرماتے ہیں :
لکن هذا التفاسیر الباطلة یقول مثلها کثیر من الجهال کما یقولون محمد صلی اللہ علیہ وسلم والذین معه ابوبکر اشداء علی الکفار عمر رحماء بینهم عثمان تراهم رکعا سجدا علی یجعلون هذه الصفات لموصوفات متعدده و یعنون الموصوف فی هؤلآء الاربعة والایة صریحة فی ابطال هذا و هذا فانها صریحة فی ان هذه الصفات کلها لقوم یتصفون بها کلها و انهم کثیرون لیسوا واحدا ولا ریب ان الاربعة افضل هؤلآء