کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 82
؟ تمہارے علامہ نسفی اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
انه کان ظلوما لکونه تارکا لاداء الا مانة جهولا لا خطائه مایساعده مع تمکنه منه وهو ادائها. هکذا فی الکشاف للزمخشری ص 565ج3بیروت)
انسان ظالم اس لحاظ سے ہے کہ یہ امانت ادا نہیں کرسکتا اور جاہل اس لئے کہ فرائض کی بجاآوری کی طاقت ہونے کے باوجود غلطیاں کرتا ہے۔
بلکہ قرآن مجید میں تویہ فرمایا گیا ہے:
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖ ۚ [1]
اللہ تعالی نے کسی آدمی کے پہلو میں دودل نہیں بنائے۔
سابعاً: جگ اور مٹکے کی جو مثال دی گئی ہے اس کے مطابق تو انسان خود امانت ہے تو پھر ظلم اورجہل کہاں رہے؟
مقرر صاحب کی بیان کردہ تفسیر کے مطابق انسان شروع ہی سے ظالم اور جاہل ہے پھر جس نے امانت کو قبول کیا اور اس کے مطابق چلا تو وہ ظالم اور جاہل نہ رہا بلکہ عالم اور عادل بن گیا۔ یہ تفسیر تو متذکرہ حدیث کے خلاف ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، پھر جس نے امانت میں خیانت کی تو وہ ظالم کہلائے گا لہذا یہ تفسیر بالرائے غلط اور مردود ہے صحیح تفسیر وہی ہے جو سلف صالحین نے بیان کی ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ سے منقول تفسیر ذکر کی گئی ہے۔
ثامناً: فرماتے ہیں کہ انسان نے دیکھا کہ مجھ میں ظلم کا ظرف ہے جب میں اس میں عدالت ڈالوں گا تو عدالت کیوجہ سے یہ بھر جائے گا اور ظلم کا نام گم گشتہ ہوجائے گا۔(صفحہ 45)
[1] الاحزاب:4