کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 80
ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهًا ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ 11؀ [1] پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اوروہ (اس وقت) دھواں تھا تو اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا دونوں آؤ ، خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے ، انہوں نے کہا ہم بخوشی آتے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ اللہ کی معرفت تمام چیزوں کو ہے۔ ثالثاً: کہتے ہیں کہ آسمان نے دیکھا کہ مجھ میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں کہ اللہ کی خالقیت کا حق ادا کروں۔الخ(صفحہ 44) جی ہاں اللہ تعالی کی عظمت کا پورا حق نہ تو کوئی ذوی العقول ادا کرسکتا ہے اور نہ غیر ذوی العقول ۔ باقی عبادت تو ساری مخلوق کرتی ہے بلکہ خالقیت کا حق سمجھ کر کرتی ہے ۔قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَیه آیت اس بات کا مظہر ہے اوریہ کہنا غلط ہے کہ انسان نے اس امانت کو صحیح طور پر ادا کر دیا تو خالقت کا حق ادا ہو جائے گا۔ بندہ ہمان بہ کہ بتقصیر خویش عذر بدرگاہ خدا آورد ورنہ سزاوار خداوندیش کس نتواند بجا آورد رابعاً: کہتے ہیں کہ آسمان کس مخلوق پر انصاف کی نظر کرتا……الخ (صفحہ 44) اس میں اللہ تعالی کی ذات کا کوئی انکار نہیں ہورہا ہے اللہ تعالی تو کسی سے کوئی بھی کام لے سکتا ہے وہ تو جانوروں سے انصاف کا کام لے سکتا ہے جیسا کہ مسند احمد میں ہے: ففی مسند امام احمد ص407جلد2ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة قال انا اسحق بن عبدالله بن ابی طلحة عن ابی صالح عن ابی هریرة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یحسب حماد ان رجلا کان یبیع الخمر فی سفینة ومعه فی
[1] صفت:11