کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 78
حدیث میں ۔ہاں تمہارے مفروضی علم میں کہ جسے باطنی علم کہتے ہو ضرور ہوگی۔ جب اللہ تعالی کی ذات و صفات بے مثل ہیں تو پھر اس کے علم کی انتہا تک کیسے پہنچا جائیگا؟یہ تو ان لوگوں کا مذہب ہے جو تشبیہ اور تجسیم کے قائل ہیں ۔ اللہ کے علم تک پہنچنا ممکن ہے تو ایسی صورت میں اس کی صفات بے مثل نہ رہیں بلکہ ضرور ان کی کوئی تشبیہ لازم آئے گی ۔ سبحانه و تعالی عما یقولون علواً کبیراً قال : اللہ تعالی فرماتا ہے ’’انا عرفنا الامانة علی السموت والارض۔الخ ۔(صفحہ 43) اقول :مذکور ہ آیت کی تفسیر میں مولانا صاحب نے جو کچھ کہا ہے یہ سلف صالحین کی تفسیر کے خلاف ہے تفسیر ابن کثیر صفحہ 522جلد 3میں اقوال سلف نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : و کل هذه الاقوال لاتنافی بینها بل هی متفق و راجعة الی انها التکلیف و قبول الاوامر والنواهی بشرطها وهو انه ان قام بذلك اثیب و ان ترکها عوقب فقبلها الانسان علی ضعفه وجهله و ظلمه الا من وفق الله و بالله المستعان. ان تمام چیزون میں منافاۃ نہیں ہے بلکہ یہ باہم متفق ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذمہ داری ہے اور اوامر و نواہی کو(تمام شرائط کے ساتھ )قبول کرنے کے لئے ہے ۔ اگر (انسان) ان اوامر و نواہی پر قائم رہے تو ثواب و جزا ہے اور اگر ان کو چھوڑ دے تو عذاب و سزا ہوگی ۔ انسان نے اپنے ضعف اور جہالت کے باوجود انہیں قبول کیا ہاں مگر جس کو اللہ توفیق دے ۔ اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔ مگر مقرر صاحب کی بیان کردہ تفسیر میں کئی مفاسد ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے آسمانوں اور زمین پر