کتاب: انسان کی عظمت اور حقیقت - صفحہ 74
(شمائم امدادیہ صفحہ 10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو پہلی بار دیکھا تو خوف کی وجہ سے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور فرما رہے تھے ’’زملونی، زملونی‘‘ مجھے چدر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔ اس بات کی صراحت صحیح بخاری، باب بدء الوحی میں مذکور حدیث میں ہے۔ باقی اہل معرفت جب چاہیں اور جس کا چاہیں دیدار کر سکتے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ Ḍ۝[1] اور اگر ہم کسی فرشتے کو بھیجتے تو اسے مرد کی صورت میں بھیجتے اور جو شبہ اب کر رہے ہیں اسی شبہے میں پھر انہیں ڈال دیتے۔ اور جن چیزوں کو تم نے بطور مثال پیش کیا ہے بتیاں یا کائنات کی دیگر چیزیں یہ تو سب عابد ہیں۔ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ[2] اور مخلوقات میں سے ہر چیز اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ[3] اور سب اپنی نماز اور تسبیح کے طریقے سے واقف ہیں۔ معبود صرف ایک اللہ ہے، آپ نے معبود کے لئے عابد کی مثال پیش کر کے دونوں کو ملا دیا ہے اور یہی اہل معرفت کا مسلک ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں آپ کے بزرگ کیا کہہ رہے ہیں: عابد و معبود میں فرق کرنا شرک ہے[4] بلکہ آپ کی بیان کردہ مثا ل کے مطابق بلب پر تو ہر اچھے اور برے شخص کی نظر پڑ سکتی ہے شمائم
[1] الانعام:9 [2] الإسراء:44 [3] النور:41 [4] شمائم امدادیہ ص34